پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
بھول گئے تھے اور گناہ کے ارادہ کا ایک ذرہ بھی ان کے دل میں نہیں تھا۔ عَصٰۤی اٰدَمُ؎ کےمعنیٰ نَسِیَ اٰدَمُ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے نافرمانی نہیں کی تھی ان سے چوک ہوگئی تھی وہ بھول گئے تھے۔ وہ اہلِ قلم نادان، بے ادب اور جاہل ہیں جو عَصٰی اٰدَمُ کا ترجمہ نافرمانی سے کرتے ہیں جب کہ خود اللہ تعالیٰ عصیان کی تفسیر نسیان فرمارہے ہیں اور بے عقل لوگوں کی آنکھیں کھول رہے ہیں کہ ارے بے وقوفو! خبردار! عَصٰی اٰدَمُ کا کہیں لفظی ترجمہ نہ کردینا۔ ہمارا کلام ہے، ہم عَصٰی کا ترجمہ خود نَسِیَ کررہے ہیں تو پھر تم کون ہو کہ اس کا ترجمہ نافرمانی کرو۔ اللہ تعالیٰعَالِمُ السَّرَائِرِ وَالْبَوَاطِنِ ہے، دل کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے قلب کا حال بیان کردیا کہ ان کا قلب بالکل مجلّٰی، بالکل مصفّٰی، بالکل مقدس، بالکل پاکیزہ تھا، وہ بھول گئے تھے، ان کے دل میں گناہ کا کوئی ارادہ نہیں تھا، انہوں نے کوئی نافرمانی نہیں کی وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا۔یہ نَسِیَ کی اور تاکید ہے کہ نَسِیَ کو اگر تم نہ سمجھ سکو تو اب وَلَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْمًا سے سمجھ لو کہ گناہ کے ارادہ کا کوئی ذرہ، کوئی اعشاریہ، کوئی مادّہ ہم نے ان کے دل میں نہیں پایا، جب اپنے کلام کے معنیٰ خود اللہ تعالیٰ بیان کریں تو اس پر ایمان لانا فرض ہے۔ روح المعانی میں حضرت ابنِ زید سے منقول ہے کہ اِنَّ الْمَعْنٰی لَم نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا عَلَی الذَّنْبِ فَاِنَّہٗ عَلَیْہِ السَّلَامُ اَخْطَأَ وَلَمْ یَتَعَمَّدْ؎ یعنی ولَم نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا کے معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے ان کے دل میں گناہ کا کوئی ارادہ نہیں پایا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اپنے بندوں کو امتحان سے بچالیا ورنہ کتنے بندے نبی کو خطا کار سمجھ کر برباد ہوجائیں۔ اب سوال یہ ہے کہ نسیان کو اللہ تعالیٰ نے عصیان سے کیوں تعبیر کیا؟ جواب یہ ہے کہ بوجۂ حضرت آدم علیہ السلام کی علو مرتبت کے کہ بڑوں کی چوک کو بھی خطا سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ ان کی بڑائی کی علامت ہے، گویا اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ ------------------------------