پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
باب تفعل اس لیے استعمال فرمایا کہ محبت کرنے کو دل نہیں چاہتا پھر بھی اچھے اخلاق سے پیش آتا ہے، مناسبت نہیں ہے، وحشت ہوتی ہے، محبت نہیں معلوم ہوتی پھر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سمجھ کر بہ تکلف محبت سے پیش آتا ہے، ملاقات ہوتی ہے تو خیر و عافیت معلوم کرلیتا ہے۔ دل کے غلام نہ بنو۔ اللہ کے غلام بنو، باب تفعل میں تکلف کا خاصہ ہے یعنی بہ تکلف محبت کرو اگرچہ دل نہیں چاہتا اور اِلَی النَّاسِمیں الف لام استغراق کا ہے کہ ساری دنیا کے انسانوں سے محبت کرو یہاں تک کہ کافر سے بھی محبت کرو، عقلاً تو دشمنی رکھو کہ یہ میرے اللہ کا دشمن ہے لیکن اس حیثیت سے کہ اللہ کی مخلوق ہے وہ آئے تو خیر و عافیت پوچھ لو اور اگر تمہارا مہمان ہے تو بادلِ ناخواستہ چائے پانی بھی کردو۔ دل سے اس کے کفر سے نفرت کرو مگر اس کو کھانا پانی دے دو تاکہ وہ سمجھے کہ مسلمان ایسے اخلاق کے ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ دیکھو کہ ایک کافر آیا جو اپنی قوم کا سردار تھا، آپ نے اپنی چادر بچھادی کہ بیٹھو۔ چادر نبوت پر ایک کافر بیٹھا ہوا ہے لیکن آپ نے اس کی اس لیے عزت کی کیوں کہ اگر وہ اسلام لے آیا تو اس کے اسلام لانے سے اس کی قوم کے بہت سے لوگ مسلمان ہوجائیں گے۔ اَنْزِلُوا النَّاسَ بِقَدْرِ مَنَازِلَھُمْ؎ جس مرتبہ کا آدمی آئے چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرو، بظاہر اکرام کرو، دل میں اس کی عزت نہ ہو، دل میں بُغض رکھو۔ یہ اسلام ہے کہ باوجود دل میں بغض ہونے کے اچھے اخلاق سے پیش آنے کا حکم دے رہا ہے، تاکہ اس تَوَدُّدْ کی برکت سے اسلام پھیلے۔ حدیثالتَّوَدُّدُ اِلَی النَّاسِمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی مشکلات حل فرمادیں۔ جس سے دل نہ ملے اس سے بھی محبت کرنے کو آپ نے آدھی عقل فرمایا۔ معلوم ہوا کہ جو بے وقوف ہے وہ مخلوق سے محبت نہیں کرتا اور اس وجہ سے مخلوق کو قابو میں نہیں رکھتا۔ محبت کرنے والے سے سب لوگ قابو میں آجاتے ہیں، دشمن بھی قابو میں آجاتے ہیں۔ اگر دل نہیں بدلے گا تو کم از کم نقصان نہیں پہنچائے گا کیوں کہ وہ احسان سے دبارہے گا، شرم آئے گی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ اپنے محسن کے ساتھ بھی بدتمیزی ------------------------------