پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
گی۔ اس کو پٹوادیا جائے گا تو وہ اللہ جس کے قبضہ میں سلطنت ہے، جو سلطنت سازی کرتا ہے، وہ ایسا بادشاہ ہے جو سلطان بناتا ہے وہ ارشاد فرماتا ہے:وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ۔الخ جو میری نافرمانی کرے گا اس کی زندگی تلخ کردی جائے گی،یہی دلیل ہے کہ یہ بادشاہ کا کلام، احکم الحاکمین کا کلام ہے، سلطان السلاطین کا کلام ہے جہاں حیٰوۃً طَیبَۃً دینے کا وعدہ کیا وہاں اپنے کو فرمایا فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ ارے ہم دیں گے تم کو حیاتِ طیبہ جو حیات دے سکتا ہے وہ طیبہ بھی دے سکتا ہے۔ پہلے حیات ہے تب طیبہ ہے تو جو حیات دے سکتا ہے وہ طیبہ بھی دے دے گا اگر اس کی فرماں برداری کروگے اور جہاں سزا کا ذکر ہے وہاں یہ نہیں فرمایا کہ میں نافرمانوں کی زندگی تلخ کردوں گا بلکہ فرمایا فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا اُن کی زندگی تلخ کردی جائے گی۔ بس ساری محنت اسی پر لگادو کہ ایک گناہ بھی نہ ہو اور اگر احیاناً ہوجائے تو آنکھوں سے خونِ دل اور خونِ جگر برسادو، توبہ کرکے اللہ سے معافی مانگ لو۔بس اس زمانے میں حُسن پرستی اور بدنظری سب سے بڑا حجاب ہے، بس آنکھ اور دل بچاؤ اللہ کو پاجاؤ گے اور اتنا مزہ آئے گا کہ بادشاہوں کو بھی اس مزہ کا تصور نہیں ہوسکتا۔اور اس کے برعکس اگر نافرمانی میں چین تلاش کیا تو چین کا خواب بھی نظر نہیں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کی زندگی تلخ ہوگی۔ میں قسم کھاتاہوں کہ کسی نافرمان کو میں نے چین سے نہیں پایا، دوستو! یقین کرلو دنیا میں کہیں چین نہیں پاؤ گے۔ میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ تم دنیا میں کہیں چین نہیں پاؤ گے سوائے اللہ کی رحمت کی گود میں۔ آخر میں جب حضرتِ والا کی غزل کا مقطع پڑھا گیا ؎ روز و شب قلبِ اختر کی ہے یہ دعا میرے مولیٰ مری استقامت رہے تو فرمایا کہ استقامت کا امتحان کیا ہے؟ کیسے معلوم ہو کہ اس کو استقامت حاصل ہے؟ استقامت کا امتحان جب ہے کہ جب سامنے کوئی خوش قامت ہو ؎ اس کی قامت ہے یا قیامت ہے