پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ اِلَیْنَا الْاِیْمَانَ وَزَیِّنْہُ فِیْ قُلُوْبِنَا وَکَرِّہْ اِلَیْنَا الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ؎ اے اللہ! ایمان کو میرے دل میں محبوب کردے اور رچادے اور کفر و فسوق و عصیان یعنی تمام نافرمانیوں کو میرے دل میں ناگوار اور مکروہ فرمادے۔ مکروہ ضد ہے محبوب کی۔ تو گناہوں کی محبوبیت اور گناہوں کی لالچ کہ اگر یہ جائز ہوتا تو بڑا مزہ آتا یہ دلیل ہے کہ ایسے شخص کا ایمان کمزور ہے۔ جب تک گناہوں سے ناگواری نہیں ہے تو سمجھ لو کہ ابھی نفس زندہ ہے اس لیے نفس کو مار ڈالو یعنی اس کی حرام آرزوؤں کو پورا نہ کرو۔ یہی اس کو مارنا ہے لہٰذا نفس کو مارو یہ سب سے بڑا ہمارا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں جو فرمادیا مسلمان کو اس پر یقین ہونا چاہیے یا نہیں؟ اگر مسلمان کو نہیں ہوگا تو کیا کافر کو ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا کہ جو ایمان لائے گا نیک عمل کرے گا فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ؎ میں اس کو بالطف زندگی دوں گا اور جو نافرمانی میں لُطف تلاش کرتا ہے، اس کے لیے یہ آیت ہے: وَ مَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِکۡرِیۡ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیۡشَۃً ضَنۡکًا ؎ اور جو میری نافرمانی کرے گا اس کے لیے حیات کا لفظ نازل نہیں فرمایا کیوں کہ اس کی حیات اس قابل نہیں ہے کہ اس کو حیات کہا جائے مَعِیۡشَۃً فرمایا یعنی جینا کہ نافرمان اس طرح جی رہے ہیں جیسے جانور جیتا ہے۔ اس کا نام حیات نہیںمَعِیْشَۃً ہے اور مَعِیْشَۃً بھی کیسی ضَنْکًا یعنی تلخ،اس کی زندگی ہمیشہ تلخ ہوگی، زندگی میں کبھی چین کا خواب بھی نہیں دیکھے گا۔ جملہ اسمیہ ہے جو ثبوت اور دوام پر دلالت کرتا ہے کہ اس کی زندگی تلخ کردی جائے گی۔ بادشاہوں کے کلام کی یہی شان ہوتی ہے۔ بادشاہ یہ نہیں کہتا کہ میں اُچھل اُچھل کر چور کے جوتے ماروں گا بلکہ کہتا ہے کہ اس کو سزا دی جائے ------------------------------