ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
|
مقالات حکمت ( جلد اول ) ------------------------------------------------------------- 227 کے طالب ہوتے ہیں تو میں ان کے ذمہ بھی ایک پچر لگا دیتا ہوں ۔ ان کے متعلق کوئی خدمت مقرر کر کے ۔ بس پھر وہ سانس بھی نہیں لیتے ۔ بات یہ ہے کہ ان کی باتیں ہی باتیں ہوتی ہیں ، خود کچھ بھی کر کے نہیں دیتے ۔ علماء ہی پر طعن کرنا آتا ہے ۔ چنانچہ ایک صاحب نے کہا کہ علماء نیا علم کلام اس زمانے میں کیوں مرتب نہیں فرماتے ۔ میں نے کہا بسم اللہ علماء اس کے لئے تیار ہیں مگر آپ بھی تو شریک ہو جئے ۔ بولے ہم کیا کریں ۔ میں نے کہا علماء اپنے کرنے کا کام کریں اور آپ اپنے کرنے کا کام کیجئے ۔ وہ یہ کہ چند بڑے عہدہ داروں کو لیجئے اور فی کس پچیس تیس روپیہ ماہوار معین کرا کر پہلے مخالفین کی کتب کافی طور سے منگا کر جمع کیجئے اور اس کے بعد کئی ماسٹر مترجم رکھ کر ترجمہ کرائیے اور پھر علماء کو ملازم رکھ کر ان کا جواب لکھا کر طبع کرائیے ۔ اگر علماء اپنے کار منصبی سے انکار کریں تو ان کے کپڑے اتار لیجئے گا ۔ میں اس کا ذمہ کرتا ہوں ۔ اس پر وہ صاحب ٹھنڈے ہو گئے ۔ یہی حال ہے ان حضرات کا کہ سارا بار علماء پر ڈالنا چاہتے ہیں ۔ میں ایک قصہ بیان کرتا ہوں ۔ ایک بادشاہ نے ایک ہاتھی کسی غریب کو دے دیا ۔ وہ غریب کھانے کو کہاں سے لاتا اور بادشاہ کی طرف سے خبرگیری نہ تھی ۔ اس غریب نے مجبور ہو کر ایک ڈھول ہاتھی کے گلے میں ڈال دیا کہ وہ بازار میں پھرتا اور لوگ اناج وغیرہ اس کو دیتے ۔ بادشاہ کے یہاں خبر ہوئی کہ حضور کا ہاتھی اس طرح مانگتا پھرتا ہے اور اس میں حضور کی ذلت ہے ۔ بادشاہ نے اس غریب کو بلا کر کہا کہ یہ کیا کیا ۔ اس نے کہا کہ حضور نے ہاتھی تو دیا مگر یہ خیال نہ کیا کہ میں کھانے کو کہاں سے دوں گا ، اس لئے میں نے ایسا کیا ۔ تو یہ حضرات علماء کو وہ ہاتھی بنانا چاہتے ہیں کہ مانگو اور کھاؤ ۔ خدمت کا بار بھی علماء اپنے ذمہ رکھیں اور چندہ بھی وہی کریں ، سب کام وہی کر لیں آپ کچھ نہ