ملفوظات حکیم الامت جلد 12 - یونیکوڈ |
|
مقالات حکمت ( جلد اول )------------------------------------------------------------- 170 نہایت مدلل اور پرزور ہوتے تھے ۔ ہم لوگ عربی پڑھتے ہوئے اگر دنیا کمانے پر آئیں تو آپ لوگوں سے اچھی کما دکھائیں ۔ تو فہم کے متعلق تو یہ گفتگو تھی ، رہی کم ہمتی ۔ اس کا شبہ اس سے ہوتا ہے کہ یہ لوگ بہت روپے نہیں کماتے ، قلیل پر قناعت کرتے ہیں تو اس کا جواب ایک مثال سے سمجھ لیجئے ۔ اگر کوئی شخص آپ کے یہاں نوکر ہو اور صرف پانچ روپے ماہوار پاتا ہو اور کوئی دوسرا شخص اس کو بیس روپے دینے کو کہے ، لیکن وہ یہ کہہ دے کہ مجھ کو تو یہ پانچ روپے اچھے ہیں ، میں اپنے آقا کو نہ چھوڑوں گا تو سچ کہئے کیا آپ اس کو کم ہمت اور بے کار کا خطاب دیں گے ؟ نہیں ۔ بلکہ آپ اس کو کہیں گے کہ بڑا عالی ہمت اور وفادار شخص ہے کہ بیس روپے پر لات مار دی اور اپنے آقا کو نہ چھوڑا اور اس کے پانچ ہی روپوں پر قناعت کی ۔ پھر تعجب ہے کہ ان لوگوں کو جو علم دین کی خدمت میں رہتے ہیں ، کیوں کم ہمت اور بے کاروں کی پلٹن وغیرہ کے خطاب ملتے ہیں ۔ حالانکہ جیسا اوپر کہا گیا ۔ اگر یہ مولوی لوگ دنیا کمانے پر آ جائیں تو آپ لوگوں سے اچھی کما دکھائیں ۔ لیکن پھر باوجود قدرت کے دنیاوی منافع کو چھوڑ کر دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور روکھے سوکھے ٹکڑوں میں خوش ہیں ۔ تو ان کو کیوں عالی ہمت اور وفادار اپنے آقا یعنی خداوند کریم کا نہیں کہا جاتا ۔ اسی سلسلے میں کسی مضمون کے دوران میں فرمایا کہ آپ لوگ جو خدمت علماء اور اہل دین کی کرتے ہیں ، یہ نہ سمجھئے کہ ہمارا احسان ہے ، آپ تو محض خزانچی ہیں اور خزانچی جو بڑے بڑے عہدہ داروں اور اہل کاروں کی تنخواہیں تقسیم کرتے ہیں ۔ یہ ان کا کوئی احسان نہیں ہے ، بلکہ خزانہ سرکاری ہے ۔ خزانچی تو ایک چھوٹی سی تنخواہ کا ملازم ہے ۔ اس کے سپرد ہی یہ خدمت ہے ۔ اللہ تعالی اپنا حکم بھیجتا ہے اور گردن دبا کر آپ کے ذریعے سے ان بزرگوں کو اپنا عطیہ پہنچاتا ہے ۔ آپ کا کوئی احسان نہیں ۔