مکاتبت سلیمان |
صاحب (خواجہ عزیز الحسن صاحب غوری مجذوبؔ) نے جرأت کر کے وہ بات پوچھی تو حضرت حکیم الامت نے اظہار فرمایا : ’’ایک مشہورفاضل ندوی اتفاقاً چند گھنٹوں کے لئے حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور چلتے وقت عرض کیا کہ مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیے حضرت والا ؒ فرماتے ہیں کہ میں متردد ہوا کہ ایسے فاضل شیخ کو میں کیا نصیحت کروں ، پھر اللہ تعالیٰ نے فوراً میرے دل میں ایک مضمون ڈالا جو بعد کو معلوم ہوا کہ ان کے بالکل مناسبِ حال تھا، میں نے کہا کہ حضرت آپ جیسے فاضل کو میں نصیحت تو کیا کرسکتا ہوں لیکن ہاں میں نے جو اپنی اس تمام عمر میں سارے طریق کا حاصل سمجھا ہے وہ عرض کئے دیتا ہوں وہ حاصل جو میں سمجھا ہوں وہ فناؔ وعبدیتؔ ہے ، بس جہاں تک ممکن ہو اپنے آپ کو مٹا یا جائے، بس اسی کے لئے سارے ریاضات ومجاہدات کئے جاتے ہیں اور بس اپنی ساری عمر فنا وعبدیت کی تحصیل میں گذار دینی چاہئے، اس تقریر کا ان پر اس درجہ اثر ہوا کہ وہ آبدیدہ ہوگئے۔ ۱؎ مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نقل فرماتے ہیں : حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حضرت سید سلیمان ندوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تشریف لے گئے، پورے ہندوستان میں جن کے علم کا ڈنکا بج رہا تھا ،’’ سیرۃ النبی‘‘ کے مصنف ، محقق وقت ، اور سیاسی اعتبارسے بھی لوگوں کے اندر مشہور ومعروف، حضرت سید صاحب خود بیان فرماتے ہیں کہ میں جب حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس سے رخصت ہونے لگا تو میں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت! کوئی نصیحت فرمادیں ۔ حضرت تھانوی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ ! یہ اتنے بڑے عالم ہیں اور مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں نصیحت کروں ۔ یا اللہ ! ایسی نصیحت دل میں ڈال دیجئے جو ان کے حق میں فائدہ مند ہو، تو اس وقت بیساختہ میرے دل میں ------------------------------ ۱؎ تذکر ہ سلیمان ص۱۳۶،اشرف السوانح ۲۱۸ج۲