مکاتبت سلیمان |
کے بعد ہی لکھی ہے،بظاہر اس میں ایک بیوقوف عاشق اور چالاک معشوق کاقصہ ہے مگر در حقیقت یہ نفس انسانی کی بصیرت افروز حکایت ہے ایک اور نظم اورادِ رحمانی کے آخر میں ہے، مولانا کو فارسی کے بیشمار اشعار یاد تھے ،حافظ اور مولانا رومی کے اشعار بیشترنوک زبان تھے ،اور نظم کا ملکہ اور سلیقہ بھی تھا ،مگر کبھی اس سے کام نہیں لیا،ایک دفعہ میں نے اپنے برادرِ گرامی قدر مولوی مسعود علی صاحب کو جو تھانہ بھون میں مقیم تھے ،اپنے حاضر ہونے کے قصد سے مطلع کیا،اور ریاض مرحوم کا یہ مصرع لکھدیا: زندگی ہے تو فقیروں کا بھی پھیراہوگا برادر موصوف نے یہ اطلاع مولانا کو دی ،اور یہ مصرع بھی سنا دیا ،تو فوراً فقیروں کو بدل کر یوں فرمایا ؎ زندگی ہے تو سلیماں کا بھی پھیرا ہوگا ایک دفعہ حضرت نے خاکسار کو ایک تسبیح عنایت فرمائی، تو خاکسار نے ایک بیت کہی ؎ خواجہ بخشید مرا سجۂ صد دانہ بلطف دانہ انداخت ودر حلقہ مرا کرد اسیر وصل مرحوم نے موقع سے حضرت کو یہ سنادیا تو فرمایا: ’’تو بھئی مجھے اس کا جواب کہنا پڑے گا‘‘ مگر کچھ فرمایا نہیں سب سے آخر میں جب خاکسار نے از خود حضرت کی تحریک واشارہ کے بغیر اپنے احساس سے مجبور ہوکر رجوع واعتراف کا مضمون معارف میں شائع کیا اور ملاحظہ کے لئے بھیجا تو بہت مسرت ظاہر فرمائی، اور مثنوی کے وزن پر دس بارہ شعر لکھ کر بھیجے جو اس ہیچ میرز کے لئے وجہ سعادت ہیں یہ غالباً آخری نظم کی تصنیف ہے اور اس کا ایک نام بھی حضرت نے رکھ دیا ہے۔