مکاتبت سلیمان |
|
رسوم اور تیسری طرف اپنے انفاس قدسیہ سے باطنی فیو ض وبرکات کا اجرا اور اسلام کے عقاید و اعمال کو زمانہ کے تہ بہ تہ ظلمات کے گردو غبار سے پاک کر نا ایسے اوصاف ہیں جن کا اجتماع ان کے محبین و معتقدین کے خیال میں اس درجہ پرہے کہ وہ منصب تجدید کی حد تک ہونچتا ہے ۔ حضرت والا کی ولادت ۱۲۸۰ ھ میں ہوئی ،مراتب درس و تعلیم سے فراغت ۱۳۰۰ھ میں ہوئی او ر ۱۳۰۱ ھ میں قطب وقت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ؒ کے مقدس ہاتھوں سے دستاربندی ہوئی اور اسی سال ۱۳۰۱ ھ سے کانپور میں بیٹھ کر درس و تدریس اور وعظ و تقریر اور تالیف و تحریر کا آغاز فرمایا اور اسی سا ل قطب آفاق حضرت مولانا شاہ فضل رحمن صاحب گنج مرادآبادی کے فیضِ دیدار سے مسرور ہوئے اور اسی سال فریضہ ٔ حج سے مشرف ہوئے اور شیخ العرب والعجم حضرت مولانا حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی سے بیعت ہو کر اور فیوض گوناگوں سے بہر ہ اندوز ہوکر ۱۳۰۲ ھ میں واپس ہوئے۔ ان تاریخوں کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ علی راس کل مائۃکی ظاہری مطابقت بھی واضح ہو جائے ،حضرت مولانا کے دینی و علمی و روحانی و اصلاحی کارناموں کو دیکھ کر خواص امت کو حضرت کے مجدد وقت ہونے کا گمان حضرت کی زندگی ہی میں ہوچکاتھا، اور بعض صاحبوں نے ہمت کر کے آپ سے دریافت بھی فرمایا تو اس طرح اس کا جواب دیا جس طرح حدودِ شرع کے اندر احتیاط کے ساتھ کہا جاسکتا ہے،چنانچہ زبانی و تحریری دونوں قسم کی روایات اس بندہ ٔ ہیچ مداں تک پہونچی ہیں ، الافاضات الیومیہ سے مؤلف ہذا نے حضرت کے حسب ذیل ملفوظ اس کتاب کے مقدمہ (دیدۂ کامل)میں نقل کیاہے،ایک مولوی صاحب نے دریافت کیا: کیا حضرت مجدد وقت ہیں ؟فرمایا’’احتمال تو مجھ کو بھی ہے مگراس سے زاید نہیں ، جزم اوروں کو بھی نہیں کرنا چاہئے، ظن کے درجہ میں گنجائش ہے، باقی قطعی یقین تو کسی مجدد