مکاتبت سلیمان |
|
اسی طرح ڈاکٹر صاحب مدظلہ‘ نے فرمایا کہ’’ آخر زمانہ میں تو حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ بس یہی فرماتے تھے کہ رات کے دو بجے آنکھ کھلتی ہے تو جی چاہتا ہے کہ سید صاحب کو بلا کر باتیں کرتارہوں لیکن پھر ان کی زحمت کے خیال سے چپ ہورہتا ہوں !‘‘ محبوب کے دل میں محب کا یہ مقام خوش بختی کی معراج ہے ! خود حضرت والا نے اپنے محبوب مرشد کے الطاف وعنایات کے سلسلہ میں میں یہ واقعہ بھی سنایا تھا کہ ایک مرتبہ وہ خانقاہ میں تشریف لے جارہے تھے ، شیخ کی محفل آراستہ تھی، حکیم الامت ؒ کی نظر جو سید والا ؒ مرتبت پر پڑی تو بے ساختہ کھڑے ہوگئے ، مریدصادق نے بڑھ کر عرض کی ’’ حضرت تشریف رکھیں ‘‘ توارشادفرمایا:۔ ’’واللہ میں تعظیما کسی کے لئے نہیں اٹھتا، میں تو فرط محبت سے کھڑا ہوگیا‘‘ اظہار محبت اور دلنوازی کی یہ ادا سنت کے سانچے میں کیسی ڈھلی ہوئی ہے!! ایک مرتبہ حکیم الامت نے ایک چھڑی تحفۂ محبت کے طور پر بھیجی اور اس کے ساتھ ایک رقعہ بھی جس میں خطاب اس بلیغ جملہ سے فرمایا تھا :۔ ’’ راحت جان راحت جسم کا سامان بھیج رہا ہوں ‘‘ حضرت سیدی نے اس عطائے شیخ کو دل وجان سے قبول فرماکر جواباً عرض کیا کہ ’’اس عطائے خاص سے میں نے استقامت فی العمل کی تعبیرلی!‘‘ حضرت شیخ قدسہ سرہ‘ نے جب یہ عارفانہ جواب پڑھا تو انبساط سے معمور ہوگئے اور اس کا ایک طویل جواب عطا فرمایا جو تمام تر دعاؤں سے لبریز تھا ، اور دعائیں بھی ایسی پرشفقت اور والہانہ انداز کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جن وانس کے شرسے محفوظ رکھے وغیرہ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ تذکرہ سلیمان ص۱۴۸۔