مکاتبت سلیمان |
حضرت علامہ کی خدمت میں آئے ، ساراماجرا سنایا ، علامہ نے فرمایا کہ مفتی صاحب (مولانا محمد شفیع صاحب) سے پوچھئے، انہوں نے عرض کیا کہ وہاں سے تو یہی جواب ملا ہے ، علامہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا : تو آپ کا کیا جی چاہتا ہے کہ جواب برعکس ملے ، اس پروہ چپ رہے ، تب علامہ نے ان سے فرمایا کہ کہ آپ ایک استفتاء لکھ کر کل مفتی صاحب کے سالانہ اجلاس میں لائیے، مجھے جو کچھ لکھنا ہوگا وہیں لکھ دوں گا ، چنانچہ دوسرے روز جلسہ جب ختم ہوا اور مخصوص علماء جن میں مفتی محمد حسن امر تسری ، مولانا ادریس کا ندھلویؒ اور خود مفتی محمد شفیع صاحب تھے ، چائے نوشی کے لئے ایک کمرہ میں بیٹھ گئے ، تو علامہ نے ان صاحب سے استفتاء لے کر ایک ایک کو دکھلایا ، متفقہ جواب تھا کہ طلاق واقع ہوگئی، پھر حضرت علامہ نے اس پر اپنے قلم سے یہ فتویٰ تحریر فرمادیا کہ اہل سنت والجماعت میں مسلک اہل حدیث کی رو سے طلاق واقع نہیں ہوئی ، رجوع کرادیاجائے ، پھر علماء کرام کو یہ دکھلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ نومسلم بیچارے تو ابھی نہ حنفی ہیں ، نہ شافعی، لٰہذا قانون میں کوئی بھی گنجائش نکلتی ہو تو اس کا فائدہ انہیں ملنا چاہئے ، اس پر حضرت مفتی صاحب نے برملا فرمایا کہ یہ جواب حضرت ہی لکھ سکتے ہیں ،ہم چوں کہ فقہ حنفی کے مفتی ہیں ، اس لئے نہیں لکھ سکتے ، پھر مفتی اعظم پاکستان نے بھی اس کی تائید فرمادی‘‘۔ ۱؎ تنبیہ: سید صاحب ؒ کا یہ فتویٰ وگنجائش ایک خاص واقعہ اور حالت میں تھی( واقعۃ حال لا عموم لہا) جس کو بنیاد بنا کر عمومی طور پر یہ اجازت نہیں دی جا سکتی۔دوسرے مذاہب پر فتویٰ دینے کے حدود وقیود اورشرائط حکیم الامت حضرت تھانویؒ اور مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے تحریر فرمائے ہیں ۔ ملاحظہ ہو الحیلۃ الناجزۃ للحلیلۃ العاجزۃ ص۲۵ و۲۶ (مرتب) ------------------------------ ۱؎ رسالہ برہان دسمبر ۱۹۸۴ء مضمون غلام احمد