پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اللہ تعالیٰ جس کے قلب سے گزرتے ہیں، یعنی تجلیاتِ خاصہ سے متجلی ہوتے ہیں تو دور سے پتا چل جاتا ہے اور دور تک پتا چل جاتا ہے کہ کوئی اللہ والا جارہا ہے۔ ان کے فیض سے دوسرے بھی اللہ والے بن جاتے ہیں۔ جب پُروا ہوا چلتی ہے تو جس کے کبھی چوٹ لگی ہو تو پُروا ہو اسے پرانی چوٹ کا درد اُبھر آتا ہے۔ ایسے ہیاَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ؎ سے عالمِ ازل میں اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی جو چوٹ لگائی تھی تو اللہ والوں کی صحبت وہ پروا ہوا ہے جس سے وہ چوٹ اُبھر آتی ہے اور بندہ کو احساس ہوتا ہے کہ آہ میرے دل پر تو اللہ کی محبت کی چوٹ لگی ہوئی ہے اور پھر وہ بزبانِ حال کہتے ہیں ؎ دل ازل سے تھا کوئی آج کا شیدائی ہے تھی جو اک چوٹ پرانی وہ اُبھر آئی ہے اس کے بعد حضرتِ والا نے مولانا یعقوب صاحب سے فرمایا وہ اشعار پڑھیں، چناں چہ انہوں نے حضرتِ والا کی غزل ’’نعرۂ مستانہ مارا چاہیے‘‘ شروع کی۔ تو حضرتِ والا نے فرمایا کہ نعرۂ مستانہ پر ایک شعر مولانا رومی کا سن لیجیے ؎ نعرۂ مستانہ خوش می آیدم تا ابد جاناں چنیں می بایدم مجھ کو نعرۂ مستانہ بہت اچھا لگتا ہے۔ قیامت تک اے میرے محبوبِ حقیقی! مجھے یہی چاہیے کہ میں آپ کے عشق میں نعرہ مارتا رہوں۔ یہ عاشقوں کی باتیں ہیں۔ مولانا روم عاشقوں کے اُستاد ہیں، نحو میر کے استاد نہیں ہیں۔ وہ عشق و محبت سِکھاگئے کہ مجھے نعرۂ مستانہ بہت لذیذ اور مزے دار معلوم ہوتا ہے۔ جس طرح گجراتیوں کو پاپڑ اور سموسہ مرغوب ہوتا ہے، ایسے ہی مولانا فرماتے ہیں کہ مجھے پاپڑ سموسہ کے بجائے اللہ کی یاد میں نعرۂ مستانہ مزے دار معلوم ہوتا ہے، قیامت تک اے محبوبِ حقیقی!یہی نعرۂ مستانہ میری روحانی غذا بن جائے۔ مولانا روم بہت بڑے عالم ہیں، منقولات و معقولات کے جامع ہیں۔ پانچ سو علماء ان کی پالکی کے پیچھے دوڑتے ہوئے چلتے تھے۔ شاہ خوارزم بادشاہ کے سگے نواسے ہیں ------------------------------