پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کے بعد مولانا رفیق ہتھورانی صاحب نے حضرتِ والا کے اشعار پڑھے جس کا پہلا شعر تھا ؎ جب کبھی دل سے آہ کرتا ہوں منزلیں پیشِ راہ کرتا ہوں ارشاد فرمایا کہجب دل سے آہ کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے راستے کی منزلیں سامنے آجاتی ہیں۔ آہ میںیہ اثر اللہ نے رکھا ہے۔ آہ اللہ سے قریب تر ہے۔ آہ اور اللہ۔ ہماری آہ کو اللہ نے اپنے نامِ پاک میں شامل فرمارکھا ہے، اپنی آغوش میں ہماری آہ کو لے رکھا ہے۔ یہی دلیل ہے کہ ہمارا اللہ سچا اللہ ہے جو ہماری آہ کا خریدار ہے۔ برعکس تمام باطل خداؤں کے نام میں ہماری آہ نہیں جیسے فرعون، نمرود، شدّاد، ہامان۔ پس جو ہماری آہ کا خریدار نہیں وہ ہمارا اللہ کیسے ہوسکتا ہے۔ جس کو اللہ ملنا ہوتا ہے اس کو آہ کی توفیق ہوتی ہے، وہ تقویٰ کا غم، گناہوں سے بچنے کا غم اُٹھاتا ہے جس سے اس کے دل سے آہ پیدا ہوتی ہے۔ مولانا رفیق صاحب بہت درد سے حضرتِ والا کے اشعار پڑھ رہے تھے۔ جب یہ شعر پڑھا ؎ عشق کی نامراد وادی میں اپنے غم سے نباہ کرتا ہوں تو حضرتِ والا نے فرمایا کہ حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ جس کو جذب کرتا ہے تو جذب کے خلاف اس کی جو مرادیں ہوتی ہیں اس میں اللہ اس کو نامراد کردیتا ہے ؎ نامرادی ہم مُرادِ دلبر است اس کی نامرادیاں اللہ تعالیٰ کی مراد ہیں، اللہ تعالیٰ اس کو اپنا بنانا چاہتے ہیں، وہ کیسے غیر میں مشغول ہوسکتا ہے۔ میرا ایک اور شعر ہے ؎ ان کی مراد ہیں اگر میری یہ نامرادیاں ان کی رضا ہی چاہیے دوسرا مدّعا نہیں