پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
یہ دو کام تو آسان ہیں آنکھ بچانا اور دل بچانا مشکل ہے خصوصاً جہاز میں جب ایئر ہوسٹس پوچھتی ہے کہ جناب! آپ کو کیا چاہیے؟ اس وقت آنکھ بچانا شیروں کا کام ہے، گوشۂچشم سے بھی اس کو نہ دیکھو کیوں کہ یہی ایئر ہوسٹس جو آج جوان ہے اور اس کو سب دیکھ رہے ہیں جب ستر برس کی بُڈھی ہوجائے گی اور چار پائی پر لیٹی کھانس رہی ہوگی اس وقت اس کو دیکھو گے؟ تو جن کا یہ انجام ہونے والا ہے ان پر کیوں اپنا انجام خراب کرتے ہو۔ نظر کو بچاؤ اور دل کو بچاؤ۔ آنکھوں کو خراب نہ کرو، آنکھیں اللہ کی نافرمانی سے خراب ہوجاتی ہیں، یہ ان کا کرم ہے کہ روشنی نہیں چھینتے ورنہ اس کی سزا یہی تھی کہ روشنی چھین لی جاتی، پھر ڈر کے مارے کوئی نہ دیکھتا مگر ان کا حلم و کرم ہے۔ یہ سوچو کہ یہ سب ایئر ہوسٹسیں ستر برس کی بڈھی ہوکر ایک قطار سے چار پائی پر پڑی ہوئی کھانس رہی ہیں اور بلغم نکل رہا ہے اور سُوکھ کر کانٹا ہوگئی ہیں، گال پچک گئے، پستان ڈھلک گئے، ایک ایک فٹ نیچے لٹکے ہوئے ہیں، اب ان کی طرف دیکھنے کو دل چاہے گا؟ تو جن کا انجام یہ ہونے والا ہے ان کی وجہ سے اپنا انجام کیوں خراب کرتے ہو۔ اور شیطان حال دکھاتا ہے اور انجام کو بُھلادیتا ہے، اس لیے ایئر ہوسٹس سے شیطان دو طرح سے بہکاتا ہے۔ یا تو پیار و محبت سے کہتا ہے کہ آپ کس محلہ میں رہتی ہیں؟ آپ کا مکان کہاں ہے؟ اچھا گلشن میں! اَرے میں بھی تو وہیں رہتا ہوں، آج تک یہ خبر نہیں تھی ورنہ کب کی آپ سے ملاقات ہوجاتی۔ ایک صورت تو یہ ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ غصہ کررہے ہیں کہ تم نے وقت پر چائے کیوں نہیں دی، لال لال آنکھوں سے اس کو دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تمہارے آفیسر سے شکایت کردیں گے۔ اس کو تو نالائق کہہ رہا ہے لیکن خود نالائق بن رہا ہے کیوں کہ نفس میں حرام لذت درآمد ہورہی ہے، غصہ میں دیکھ رہا ہے اور نفس اندر اندر مزے لے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سینوں کے رازوں سے باخبر ہے ؎ چوریاں آنکھوں کی اور سینوں کے راز جانتا ہے سب کو تُو اَے بے نیاز