پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
معلوم ہوا کہ تنہائی میں نفلی عبادت تو کرو مگر فرض نماز جماعت سے پڑھو یعنی عاشقوں کے ساتھ رہو، پانچوں وقت عاشقوں کی ملاقات واجب ہے اور جمعہ کے دن اور زیادہ عاشقوں سے ملو کیوں کہ جامع مسجد میں عاشقوں کا اجتماع زیادہ ہوگا اور پھر عید اور بقر عید میں اور زیادہ عاشقوں سے ملو اور حج کرنے جاؤ تو بین الاقوامی عاشقوں کی ایک بہت بڑی تعداد سے ملو۔ عاشقوں کے بغیر عاشق کا جینا محال ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب تک دنیا میں رہنا کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَرہنا’’صادقین‘‘سے مراد ’’متقین‘‘ ہیں۔ اُولٰئِکَ الَّذیْنَ صَدَقُوْاوَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَصادق اور متقی کلی متساوی ہے یعنی ایک ہی چیز ہے تو سوال یہ ہے کہ جب صادق سے متقی مراد ہے تو پھر متقی کیوں نازل نہیں کیا صادق کیوں نازل کیا؟ تاکہ معلوم ہو کہ صادق فی التقویٰ مراد ہے، جس کا تقویٰ سچا ہو، بناوٹی نہ ہو یعنی جو نفس کی حرام خواہش اور ناجائز مطالبہ کو کچل دیتا ہو اور اللہ کو راضی رکھتا ہو وہ متقی ہے۔ پس جوتقویٰ میں صادق ہے وہی متقی ہے اور جو نفس کا غلام ہے وہ ہر گز متقی نہیں کیوں کہ وہ تقویٰ میں صادق نہیں۔ بس نفس کے غلام نہ بنو بلکہ نفس پر غالب رہو۔ اللہ تعالیٰ نے جب تک دنیا میں زندہ رکھا ہے تو کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کا حکم دیا ہے کہ صادقین کے ساتھ رہ پڑو۔ یہ ترجمہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے کہ ایک دو دن کے لیے جاکر کسی بزرگ سے مل آنا کافی نہیں بلکہ ان کے ساتھ رہ پڑو۔ علامہ آلوسی السید محمود بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے ای خَالِطُوْھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ؎ یعنی اتنا ساتھ رہو کہ تم بھی اس شیخ کی طرح ہوجاؤ، اس کا تقویٰ تمہارے اندر منتقل ہوجائے، اس کے آنسو تمہارے آنسو ہوجائیں، اس کی آہ تمہاری آہ ہوجائے۔ یہ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ایک دو دن کی ملاقات کا نام نہیں ہے، اللہ والوں کے ساتھ مسلسل رابطہ کا نام ہے۔ ان کے ساتھ اتنا رہو کہ ان ہی جیسے ہوجاؤخَالِطُوْھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ اللہ والوں سے اتنا زیادہ خلط ملط رکھو کہ تم بھی ان ہی جیسے اللہ والے ہوجاؤ۔ یہ خَالِطُوْا حدیث میں بھی آیا ہے۔ ------------------------------