پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
کرسکو گے اس لیے پھر کہتا ہوں کہ دوسری شادی مت کرو اگرچہ شرعاً جائز ہے، مگر بشرطِ شیٔ جائز ہے اور وہ شیٔ کیا ہے؟ ’’انصاف‘‘ جو مشکل ہے اس زمانے میں۔ ایک تعلق والے صاحب نے عرض کیا کہ میری بیوی نے بس مجھے ایک دن کی اجازت حضرتِ والا کی خدمت میں رہنے کی دی ہے۔ حضرتِ والا نے فرمایا کہ اس سے کہو کہ تمہاری محبت لینے کے لیے میں شیخ کے پاس رہ رہا ہوں کیوں کہ شیخ بیویوں کے حقوق کی تعلیم دیتے ہیں اور دوسری شادی کو منع کرتے ہیں۔ جب اس سے یہ کہو گے تو بخوشی اجازت دے دے گی،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دین سیکھنے کے لیے ماں باپ کی اجازت بھی ضروری نہیں ہے۔ اگر ماں باپ منع کرتے ہیں تو اس میں ان کی اطاعت نہیں کیوں کہ شیخ کے پاس جانا اصلاحِ نفس کا ذریعہ ہے اور اصلاح فرضِ عین ہے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے امداد الفتاویٰ ج ۵ میں یہ مسئلہ لکھا ہے البتہ حکمت اور ادب کا لحاظ رکھو، بے ادبی نہ کرو، ادب سے کہہ دو اور کوئی بہانہ کرکے شیخ کے پاس چلے جاؤ کیوں کہ دین سیکھنا فرض ہے۔ تو دین کے لیے جب ماں باپ کی اجازت بھی ضروری نہیں ہے تو بیوی سے کیسے ضروری ہوگی؟ ان ہی صاحب نے عرض کیا کہ میری بیوی بہت زیادہ حسین ہے،بے انتہا حسین ہے، لیکن حضرت والا کی صحبت میں مجھے جو مزہ مل رہا ہے اس کا ایک ذرّہ بھی بیوی کے پاس ایک لمحہ کو نہیں ملا، آپ کے پاس کے مزہ کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ارشاد فرمایا کہ بتادوں اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ تمہاری بیوی کے پاس حسن ہے اور میرے پاس خالقِ حسن ہے۔ وہ حسین ہے مگر مخلوق ہے، میرے پاس خالق کا مزہ آرہا ہے، جس نے اس کو حسن دیا ہے وہ میری گفتگو، میری تقریر میں موجود ہے، تو خالق کے مزہ کے سامنے مخلوق کیا بیچتی ہے۔ آپ کی بات سو فیصدصحیح ہے، جس کو اللہ کا مزہ مل گیا وہ بھول گیا سارے جہان کو۔ اس لیے جب جنت میں اللہ کا جلوہ نظر آئے گا تو جنت اور جنت کی حوریں بھی یاد نہیں آئیں گی، کیوں کہ اس کے سامنے خالقِ حُسن ہے۔ خالق حُسن کے سامنے حُسنِ مخلوق کیا بیچتا ہے، جنت کیا بیچتی ہے، حوریں کیا بیچتی ہیں۔