پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اختیار ہے کہ تو ایک ہی دروازے کو منتخب کرتا ہے اور دوسرے کو نظر انداز کرتا ہے۔ اگر تقویٰ کے دروازے سے نہیں آسکتا تو توبہ کے دروازے سے آجا۔ دونوں دروازے میرے ہیں۔ ممکن ہے تمہارے لیے اسی میں مصلحت ہو کہ گناہ ہوجانے کے بعد تم پر ندامت ہو اور یہی ہمیں محبوب ہو۔ لہٰذا جب خطا ہوجائے تو مجھ کو روکر منالو۔ کیا تم نے قرآنِ پاک کی یہ آیت نہیں پڑھی: اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ اللہ تعالیٰتوابینیعنی توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے اور متطہرینیعنی بہ تکلف پاکی حاصل کرنے والوں کو بھی محبوب رکھتا ہے اور بابِ تفعل استعمال فرمایا جس میں تکلف کی خاصیت ہے یعنی دل اگر مسلمان نہ ہو، دل میں رام رام ہو توبہ تکلف کلمہ پڑھتے رہو، بہ تکلف میرے بنتے رہو، بہ تکلف توبہ کرتے رہو کفر سے بھی اور گناہوں سے بھی یعنی اگر تمہارا دل میرا مطیع و فرماں بردار نہ ہو تو بہ تکلف دل کو بھی فرماں بردار رکھو اور جسم کو بھی بہ تکلف فرماں بردار رکھو۔ حافظ عبدالولی صاحب بہرائچی رحمۃ اللہ علیہ مجازِ صحبت حکیم الامت تھانوی نے حکیم الامت کو خط لکھا کہ حضرت! کل قیامت کے روز معلوم نہیں میرا کیا حال ہوگا تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا اور حضرت کی یہ تحریر میں نے خود پڑھی ہے جو حافظ صاحب نے مجھے دکھائی تھی کہ ان شاء اللہ تعالیٰ! بہت اچھا حال ہوگا، اگر کاملین میں نہیں اُٹھائے گئے تو تائبین میں ضرور اُٹھائے جائیں گے اور یہ بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ والوں سے تعلق کرنے میں فائدہ ہی فائدہ ہے، کاملین میں شمار نہ ہوا تو تائبین میں ضرور ہوگا اور اگر یہ تعلق غیر مفید ہوتا تو اللہ تعالیٰ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کا حکم نہ دیتے جس کا ترجمہ حکیم الامت مجدد الملت تھانوی نے کیا ہے کہ متقین بندوں میں رہ پڑو۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کامل کا ساتھ جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کے اوصاف اس کے ساتھ رہنے والوں میں جذب ہوجائیں گے اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہوجائے گا۔ اسی لیے اہل اللہ اپنے شیخ کی صحبت میں رہنے پر زور دیتے ہیں۔ حضرت