پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
اس شعر کی تشریح میں حضرتِ والا نے ارشاد فرمایا کہ جو مُنْعَمْ عَلَیْہم ہیں۔ یعنی جن لوگوں پر اللہ نے اپنا انعام فرمایا ان کا راستہ پکڑو۔ صراطِ مستقیم کا بدل الکل من الکل صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْہے۔ ؎ معلوم ہوا کہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کا راستہ ہی صراط مستقیم ہے اورمُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کون ہیں؟ یعنی جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام نازل کیا وہ کون لوگ ہیں؟ وہ نبیین، صِدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ کَمَا قَالَ تَعَالٰی: فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ ؎نبیین کے بعد صدیقین کا درجہ ہے یعنی اولیاء اللہ میں سب سے بلند درجہ صدیقین کا ہے اور صدیقین کے بعد شہداء ہیں پھر صالحین۔ ان چاروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًایہ بہت اچھے رفیق ہیں، ان کی رفاقت کو پکڑ لو بہت اچھے رفیق ہیں۔ تفسیرِ خازن میں ہے کہ حَسُنَمعنیٰ میں مَااَحْسَنَ کے ہے یعنی افعالِ تعجب میں سے ہے۔ اسی کو بابا فریدالدین عطار نے اپنے شعر میں کہا ہے ؎ بے رفیقے ہر کہ شد در راہِ عشق عمر گذشت و نہ شد آگاہِ عشق جس نے بے رفیق کے اللہ کے راستے میں قدم رکھا عمر ختم ہوگئی مگر اللہ کے عشق سے اس کو آگاہی ہی نہیں ہوئی۔ اسی رَفِیْقًا کو لیا ہے بابا فرید الدین عطار نے۔ اللہ والوں کا کلام قرآن و حدیث سے ماخوذ ہوتا ہے۔ تو وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا فرماکر اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے کہ یہ بہت ہی اچھے رفیق ہیں جس سے مراد یہ ہے کہ ان کو اپنا رفیق بنالو۔ اگر ہم کہہ دیں کہ کیا ہی اچھا کباب آج میرے یہاں تیار ہوا ہے تو جتنے یار دوست ہوں گے کہیں گے کہ یار! ہمیں بھی کھلاؤ، کیوں کہ اس خبر میں انشا پوشیدہ ہے کہ آؤ کباب کھالو۔ پس وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًااگرچہ جملہ خبر یہ ہے مگرمعنیٰ میں انشائیہ کے ہے کہ ان کو رفیق بنالو۔ حَسُنَ معنیٰ میں مَااَحْسَنَ کے ہے یعنی افعالِ تعجب میں ------------------------------