پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
تقویٰ سکھائے گا، وہ تو کہے گا کہ چلو تم بڑے اچھے آدمی ہو اور خود بھی گناہ میں شریک ہوجائے گا۔ لہٰذا دین سکھانے والا متقی ہو یعنی جو اللہ سے ڈرتا ہو وہ اپنے عمل سے بتائے گا کہ گناہ کے کام چھوڑ دو۔ ارشاد فرمایا کہمیرے حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث اِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّاکے متعلق فرمایا کہ جار مجرور مقدم ہوگیا تو اِنَّ کا اسم موخر ہوگیا اس لیے حَقًّا پڑھا جائے گا، اس پر مجھے ایک واقعہ سنایا کہ ایک مولوی صاحب تھے جن کی بیوی بہت حسین تھی، قسمت کی بات ورنہ سب چاہتے ہیں کہ بیوی حسین ہو لیکن اکثر کالی کلوٹی ہی ملتی ہے، شاید سو میں کسی ایک کو حسبِ مرضی مل جاتی ہو ورنہ زیادہ تر مزاج کے مطابق نہیں ہوتی۔ بہرحال ان عالم صاحب کو بہت حسین بیوی مل گئی۔ زیادہ حُسن بھی خطرناک ہے۔ بیوی کم حسین ہو تو اچھا ہے جس سے گناہوں سے حفاظت بھی رہے اور نفس بھی اعتدال میں رہے۔ اگرچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ جس کی بیوی حسین ہو اس کی امامت افضل ہے کیوں کہ بیوی حسین ہونے کی وجہ سے نظر خراب نہیں ہوگی۔ لیکن بے اعتدالی سے حسن کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولوی صاحب جب بھی چلم بھرنے گھر جاتے تو بیوی سے لپٹ جاتے، دیکھ کر صبر نہیں ہوتا تھا، اتنی زیادہ صحبت کی کہ صحت خراب ہوگئی، آخر میں ان کو تپ دق ہوگیا یعنی ہڈی میں حرارت اُتر گئی، بخار رہنے لگا اور جوانی ہی میں انتقال ہوگیا۔ یہ حُسن زندگی کا قاتل ہے جس کے لیے بہت تمنائیں کرتے ہیں۔ بس جس کو جیسی مل جائے اس پر قناعت کرو۔ دنیا مسافر خانہ ہے، مسافر خانے میں کوئی اچھی چائے پاتا ہے؟ جیسی مل جاتی ہے اس پر گزارہ کرتا ہے کہ گھر جاکر اچھی والی پئیں گے۔ یہاں جیسی بیوی مل گئی سمجھ لو یہی اللہ کے یہاں مقدر تھی، اسی میں خیر ہے، اب سڑکوں والی کو مت دیکھو، ان کو دیکھ کر للچانا حرام ہے۔ بس اپنی بیوی کو دیکھو اور شکر کرو۔ یہی ہماری کالی کلوٹی جنت میں حوروں سے زیادہ حسین کردی جائیں گی۔ حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: