پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
والا ہے اور گناہ چھوڑی ہوئی، طلاق دی ہوئی چیز ہے۔ مطلقہ تو حلالہ سے جائز ہوسکتی ہے لیکن اللہ کی نافرمانی کبھی حلال نہیں ہوسکتی،نافرمانی تو از ابتدا تا انتہا حرام ہے، اس کے حلال ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ بس مبارک ہے وہ بندہ جو گناہوں سے بچتا ہے اور نحوست اور شامتِ اعمال اس کو گھیرے ہوئے ہے جو گناہ نہیں چھوڑتا۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ترک اس لیے فرمایا کہ جب تک تم تارک نہیں بنوگے گناہ تم سے نہیں چھوٹیں گے، جب تمہارا ارادہ ترک کا ہوگا تب گناہ متروک ہوں گے اور اگر گناہوں کو مراد بنایا ہوا ہے تو اسی حالت میں موت آئے گی۔ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِی بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ ترک معاصی مصدر ہے جو معنیٰ میں اسم فاعل کے ہے۔ مصدر کبھی اسم فاعل کے مفہوم میں آتا ہے اور کبھی اسم مفعول کے مفہوم میں آتا ہے مگر یہاں فاعل کے مفہوم میں ہے اور تارک معصیت مراد ہے۔ معلوم ہوا کہ جب اللہ کو راضی کرنے کا ارادہ کروگے تب گناہوں کو چھوڑ سکتے ہو جو ظالم اللہ کو راضی کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا وہ گناہوں سے منہ کالا کرتا رہتا ہے اور اسی حالت میں اس کو موت آجاتی ہے۔لہٰذا اللہ تعالیٰ سے مانگو کہ اے اللہ! میں تو اپنے اوپر رحم نہیں کررہا ہوں، اپنے نفس پر ظلم کررہا ہوں آپ رحم کردیجیے اور گناہوں کو چھوڑ دینے کی توفیق عطا فرمادیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معصیت کو آگے تعبیر فرمایا کہ دیکھو اگر معصیت نہیں چھوڑوگے تو شقی اور بدبخت ہوجاؤ گے وَلَاتُشْقِنِیْ بِمَعْصِیَتِکَ؎ اور معصیت سے مجھ کو شقی اور بدبخت نہ بنائیے۔ اللہ اکبر! رسول اللہ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم گناہ کی خاصیت بیان فرمارہے ہیں کہ گناہ ایسی چیز ہے کہ اگر اس کو نہ چھوڑا تو تم بدبخت اور بدنصیب ہوکر مرجاؤگے۔ شقاوت بدبختی اور بدنصیبی کو کہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم امت کو دعا سکھارہے ہیں کہ اے اللہ! ہم کو بدنصیب نہ ہونے دیجیے بہ سبب معصیت کے۔ باء یہاںسببیہ ہے یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم گناہ کرکے بدبخت ہوجائیں۔ معلوم ہوا کہ گناہ کرکے آدمی بدبخت ہوجاتا ہے۔ توفیقِ توبہ اللہ کے ہاتھ میں ------------------------------