پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
جس نے جنگل کی زندگی اختیار کی اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ یہ حدیث ہے، بادیہ معنیٰ دیہات کے ہیں۔ دیہات میں رہنے والا جمعہ سے محروم، علماء و صوفیا سے محروم۔ گاؤں میں بڑے بڑے علماء کہاں رہتے ہیں، ہل جوتنے والے رہتے ہیں۔ شہری زندگی دیہات کی زندگی سے افضل ہے۔ میں نے تفاسیر میں دیکھا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جب بادشاہ ہوگئے تو اپنے بھائیوں کو بلایا اور تفسیر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہری زندگی کو نعمت قرار دیا ہے کیوں کہ شہر میں ہر قسم کی سہولتیں ہوتی ہیں، دیہاتی زندگی بہت گھٹیا ہے، شہروں میں رہنے سے بڑے بڑے علماء، صوفیا اور اولیاء اللہ کی زیارت ہوتی رہتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مجھے عاشقوں کا مجمع ملتا ہے چاہے بنگلہ دیش جاؤں چاہے برطانیہ اور امریکا جاؤں یا جنوبی افریقہ جاؤں اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کا نظارہ نظر آتا ہے جس سے میرا دل باغ باغ ہوجاتا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا شکر ادا کرتا ہوں۔ غارِ حرا کی خلوت بہت مبارک ہے اور بزرگوں کو بھی ابتداءً خلوت محبوب کردی جاتی ہے لیکن نبوت عطا ہونے کے بعد پھر آپ غارِ حرا کی خلوت میں نہیں گئے۔ پھر آپ نے انسانوں کو تلاش کیا تاکہ نبوت کا فیض پہنچائیں۔ ہم بھی ابتدائی زمانے میں پھولپور میں رہے، لیکن اب اللہ تعالیٰ نے کراچی میں رکھ دیا ہے جو بین الاقوامی شہر ہے، جہاں دنیا کے ہر شہر کے آدمی آتے ہیں اور مجھے اللہ تعالیٰ کے بندوں کی خدمت کا موقع ملتا ہے اور آہ و نالوں کا۔ اور اگر آہ و نالہ نہیں ہے اور اس کا دل درد بھرا نہیں ہے تو صرف زبان ہے، دل زبان کے ساتھ نہیں ہے۔ یاد رکھو کہ زبان تب اثر کرتی ہے جب دل بھی ساتھ ہو۔ میرا شعر لندن میں ہوا تھا ؎ اس طرح دردِ دل بھی تھا میرے بیاں کے ساتھ جیسے کہ میرا دل بھی تھا میری زباں کے ساتھ اور دوسرا شعر ہے جس کو چاہے لوگ اپنے منہ میاں مٹھو کہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ حقیقت بھی یہی ہے ؎ اس درجہ حلاوت ہے مرے طرزِ بیاں میں خود میری زباں اپنی زباں چُوس رہی ہے