پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
ہونا دو قسم کا ہے: ۱) غفلتِ تامہ ۲) غفلتِ ناقصہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو غفلتِ تامہ میں مبتلا ہوتا ہے۔ گناہ بغیر غفلتِ تامہ کے نہیں ہوسکتا۔ جب حق تعالیٰ کی یاد آدمی کو بالکل نہیں رہتی تب گناہ کرتا ہے اور غفلتِ ناقصہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ سے ذھول ہوجائے، اللہ یاد نہ رہے، غرق فی الدنیا ہوجائے اور اللہ کی یاد کا کیا طریقہ ہے؟ اس زمانے میں زبان سے ہر وقت ذکر کرنا اپنے کو پاگل بنانا ہے، جو ہر وقت زبان چلاتے رہتے ہیں ان کے دماغ میں خشکی بڑھ جاتی ہے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا جب آدمی ہر وقت ذکر کرتے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے میں ان کے پاخانے اونٹ کی مینگنیوں کی طرح خشک ہوتے تھے اور اب دست اور لیکوئڈ (Liquid) ہوتے ہیں تو اس زمانے پر اس زمانے کو کیسے قیاس کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اب ہر وقت ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اوقات مقرر کرلیں، چوبیس گھنٹے زبان کو مت چلاؤ ورنہ دماغ خراب ہوجائے گا۔ مولانا یونس پٹیل صاحب نے پوچھا کہ ذھول میں معصیت ضروری نہیں؟ فرمایا کہ صرف ذھول ہوتا ہے یہی غفلت ناقصہ ہے۔ جب غفلتِ تامہ ہوتی ہے تب گناہ کرتا ہے، بدنگاہی کرتا ہے یا بدفعلی کرتا ہے۔ غرض ہر گناہ میں غفلتِ تامہ ہوتی ہے اور غفلت ناقصہ میں آدمی کو ذھول ہوجاتا ہے، یہ احساس نہیں رہتا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، بندہ اللہ تعالیٰ کو ایک طرح سے بھول جاتا ہے، اس حالت میں گناہ سر زد نہیں ہوتا۔ گناہ غفلتِ تامہ میں ہوتا ہے جب بندہ اللہ سے بالکل غافل ہوتا ہے اور غفلتِ تامہ بھی نہ ہو، غفلتِ ناقصہ بھی نہ ہو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا خیال رہے یہی کمالِ بندگی ہے اور یہی مطلوب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہر وقت بندگی کے دائرہ میں رہے، کسی وقت دائرۂ بندگی سے نہ نکلے، اتنا خیال رہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں جیسے اتنا خیال رہے کہ میں اپنے باپ کا بیٹا ہوں، ابا کا اتنا ہی خیال فرض ہے کہ میں اپنے ابا کا بیٹا ہوں ایسے ہی ربا کا اتنا خیال فرض ہے کہ میں اپنے رب کا بندہ ہوں ۔ جب تک انسان غفلتِ تامہ اور ناقصہ دونوں سے نجات نہیں پائے گا اس کا شمار اولیائے صدیقین میں نہیں ہوگا۔ مرے گا تو ناقص ایمان لے کے جائے گا۔ ایمان کامل تب ہوتا ہے کہ جب نہ غفلتِ تامہ ہو نہ غفلتِ ناقصہ ہو، ہر وقت یہ خیال رہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں۔ بس خیال رہنا کافی ہے۔