پردیس میں تذکرہ وطن |
س کتاب ک |
|
لالچ نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا لالچی بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ اگر تم میری محبت چاہتے ہو تو میرے رسول کی محبت کرو۔ میں تو عالمِ غیب میں ہوں، تم مجھے دیکھ نہیں رہے ہو لیکن میرے رسول کو تو تم دیکھ رہے ہو۔ جب میرے رسول کی تمہیں محبت ہوگی تب ہی تو میری محبت ہوگی۔ تم رسول اللہ کے کہنے سے، بغیر دیکھے مجھ پر ایمان لائے ہو تو اس میں کیا تعجب ہے۔ ماں کے کہنے سے باپ پر یقین لاتے ہو، ماں کہہ دیتی ہے کہ یہ تمہارے ابو ہیں تو اس پر یقین آجاتا ہے حالاں کہ ماں جھوٹ بول سکتی ہے، اس کے قول میں کذب کا امکان ہے، جھوٹ بولنے کا احتمال ہے لیکن پھر بھی ماں کی محبت پر اتنا اعتماد ہے کہ تم بغیر دلیل کے باپ کو تسلیم کرلیتے ہو، ماں سے نہیں پوچھتے کہ کیا دلیل ہے کہ یہ میرا باپ ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں دلیل چاہتے ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں، جھوٹ نہیں بول سکتے، جھوٹ بولنا ان کے لیے محال ہے، نبی معصوم ہوتا ہے، سچا ہوتا ہے۔ پھر مکہ والوں نے چالیس سال تک دیکھا کہ خدا کا رسول بالکل سچ بولتا ہے، امانت میں خیانت نہیں کرتا، مکہ والوں کے دلوں پر اللہ نے اپنے رسول کی صداقت اور امانت کا سکہ بٹھادیا اور ان کی زبان سے کہلوادیا ھٰذَا صَدُوْقٌ اَمِیْنٌ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل سچے اور امانت دار ہیں اسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بتایا ذَالِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْیہ ہے تمہارا اللہ جو تمہارا رب ہے۔ اتنے میں حضرتِ والا کے ایک ذی عالم خلیفہ تشریف لائے تو حضرتِ والا نے ان سے فرمایا کہ آگے آجائیے اور حاضرین سے فرمایا کہ آپ مولانا کو جانتے ہی ہوں گے کہ کون ہیں؟یہ میری محبت میں آئے ہیں۔ یہ آکسفورڈ یونی ورسٹی اور دنیا بھر میں تعلیم کے لیے بلائے جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنے کو فنا کردینا اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ جو اللہ کی محبت میں اپنے کو نہیں مٹاتا وہ اللہ کو نہیں پاسکتا۔ اگر اللہ کو پاناہے تو نفس کو مٹانا ہے، اللہ کو پانے کے لیے نفس کو مٹانا شرط ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ یا اللہ!آپ کیسے ملتے ہیں تو فرمایا:دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالْنفس کو مٹادو اور مجھ کو پاجاؤ۔ نفس فرعون ہے یہاَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰیچاہتا ہے ؎