خطیب کے جرح کی حقیقت
امام صاحب پر جن لوگوں نے جرح کیا ہے او رامام صاحب کی طرف مطاعن ومعایب کو منسوب کیا ہے اس میں سرفہرست خطیب بغدادی ہیں بعد میں زیادہ تر حضرات نے خطیب کی عبارتوں سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے؛لیکن خطیب کے جرح کی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں بعض حضرات کی رائے تو یہ ہے کہ خطیب نے مدح وذم کے تمام روایات کو ذکر کرکے اپنے مؤرخانہ فریضہ کو انجام دیا ہے اس میں انہوں نے روایت کی صحت وغیرہ پر زور نہیں دیا ہے، خود خطیب ان کے قائل نہیں تھے،اور نہ ہی یہ خطیب کی اپنی رائے تھی بعض جرح کو نقل کرکے خطیب نے امام صاحب کا دفاع بھی کیا ہے، مثلا جنت وجہنم کے غیر موجود ہونے کی جرح نقل کرکے خطیب کہتے ہیں قول بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ خود راوی ابو مطیع اس کا قائل تھا ابو حنیفہ نہ تھے جب کہ بہت سے حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگر چہ یہ خطیب کی اپنی رائے نہیں؛لیکن خطیب کو ا ن اقوال کے نقل کرنے سے ا حتراز کرنا چاہئے تھا، انہوں نے امام صاحب کے متعلق ان باتوں کو لکھ کر گویا اپنی کتاب کی استنادی حیثیت کو کم کردیا ہے، حافظ محمد بن یوسف الصالحی الشافعی(المتوفی ۹۴۲ھ)فرماتے ہیں:
حافظ ابو بکر خطیب بغدادی نے امام ابو حنیفہ کے بارے میں جومخلِ تعظیم باتیں نقل کی ہیں ان سے دھوکہ نہ کھاناچاہئے،خطیب بغدادی نے اگر چہ پہلے مدح کرنے والوں کی باتیں نقل کی ہیں مگر اس کے بعد دوسرے لوگوں کی باتیں بھی نقل کی ہیں سو اس وجہ سے انہوں نے اپنی کتاب کو بڑا داغدار کردیا ہے اور بڑوں اور چھوٹوں کے لئے ایسا کرنے سے وہ ہدف ملامت بن گئے ہیں اور انہوں نے ایسی گندگی