رہی اور جب مسلسل انکار دیکھا تو عہدہ قضاء قبول کرنے پر مجبور کرنے لگا اور غیض و غضب سے مامور قسم کھاتے ہوئے اعلان کیا اگر عہدہ قضاء کو بھی قبول نہ کیا تو میں ان کو کوڑ ے ماروںگا ،،لیکن امام صاحب جودین کے نشے میں مخمور تھے ،ابن ہبیرہ کے کوڑے سے زیادہ آخرت کی آہنی گرز کی چمک ان کے یقین کے آنکھوں کے سامنے کو ند رہی تھی ،انہوںنے بھی قسم کھا کر کہا ’’ہرگز عہدہ قضاء قبول نہ کروںگا ابن ہبیرہ قتل ہی کیوں نہ کر دے ،،ابن ہبیرہ غصے میں تلملا اٹھااور موت کی دھمکی دینے لگا ،ا مام صاحب نے انتہائی سکینت واستقامت کے ساتھ فرمایا صرف ایک ہی موت تک ابن ہبیرہ کا اقتدار ہے ،گورنر کے اشارہ پر جلاد نے کوڑے برسانے شروع کردئے ،چند کوڑوں کے بعد امام صاحب کی زبان سے ایک تاریخی جملہ نکلا جس میں ابن ہبیرہ کو خطاب کرکے فرمایا ’’یادکر ا س وقت کو جب اللہ کے سامنے تو بھی کھڑاکیا جائیگا اور تیرے سامنے میںجتناذلیل کیا جارہاہوں اس سے کہیں زیادہ ذلت کے ساتھ تو خدا کے دربار میں پیش کیا جائیگا ،ابن ہبیرہ تو مجھے موت کی دھمکی دیتا ہے ،حالانکہ دیکھ میں شہادت دے رہا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، دیکھ میرے متعلق تو بھی پوچھا جائے گا ،اس وقت بجز سچی بات کے کوئی جواب تیرا نہیں سنا جائے گا ،، کہتے ہیںکہ اس آخری فقرہ پر ابن ہبیرہ کا چہرہ فق پڑگیا ،جلاد کی طرف اشارہ کیا ’’بس‘‘سزا کے بعدجب امام صاحب کو واپس جیل لے جایا جارہا تھا ، توان پر مار کے گہرے نشان پڑ ے تھے اور مظلوم امام کا چہرہ سو جا ہوا تھا ، لیکن امام صاحب ظالم حکومت کے خلاف جو مقاطعہ کا فیصلہ کر چکے تھے،اس سے سر مو انحراف نہ کیا تاآ نکہ بنو امیہ حکومت کا سورج غروب ہوگیا ۔
امام صاحب عہدعباسی میں
بنو امیہ کے خاتمہ اور حکومت ِعباسی کے آغاز میں امام صاحب مکہ معظمہ میں مقیم