زیادہ قریب ہو اور اگر تابعین کی کوئی روایت ہو تو اس میں مزاحمت کرتا ہوں اور ازخود غوروخوض کرتا ہوں۔
عبد اللہ بن مبارک کے اس قول سے امام صاحب کا اتباع حدیث کا اہتمام ودوام اور حدیث کے ہوتے ہوئے کسی اور دلیل کو ترجیح نہ دینا صاف دکھائی دیتا ہے ؛اسی لیے امام صاحب نے اس الزام کی جو ان کی طرف منسوب ہے اور آج بھی بعض لوگ امام صاحب کی طرف اس بہتان کو منسوب کرتے ہیں کہ امام صاحب قیاس و رائے کی بنیاد پر فتوی دیتے ہیں، سختی کے ساتھ تردید فرمائی ہے۔
الفقہ الحنفی وادلتہ کے مقدمہ میںامام صاحب کا قول منقول ہے :
کذب واللہ وافتری علینا من یقول: إننا نقدم القیاس علی النص وہل یحتاج بعد النص إلی قیاس ۔( ۱)
خدا کی قسم ان لوگوں نے جھوٹ کہا اور مجھ پر بہتان باندھا جنہوں نے کہا کہ میںقیاس کو نص پر مقدم کرتا ہوںکیا نص کے ہوتے ہوئے قیاس کی کوئی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟
قیاس کے مقابلہ میں حدیث ضعیف پر عمل
امام صاحب کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ آپ حدیث ضعیف کے مقابلہ میں قیاس ورائے کو کوئی وقعت نہیں دیتے ہیں، اور نہ حدیث ضعیف کے ہوتے ہوئے قیاس کو قابل اعتنا سمجھتے ہیں ؛چنانچہ علامہ ابن القیم اپنی مشہور اور گرانقدر کتاب’’ اعلام الموقعین‘‘ میںلکھتے ہیں :
وأصحاب أبي حنیفۃ رحمہ اللہ مجمعون علی أن مذہب أبي حنیفۃ أن ضعیف الحدیث عندہ أولیٰ من
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
( ۱) الفقہ الحنفی وادلتہ :۱؍۲۴،وہبی سلیمان غاوجی،ابو حنیفۃ النعمان امام الائمۃ الفقہاء ص: ۱۳۸