امام صاحب کے صوفیاء تلامذہ
امام صاحب طریقت وتصوف میں اپنے ہم عصروں پر فوقیت رکھتے تھے اور فقہ وحدیث کی طرح وہ اس میدان کے بھی شہباز تھے اور اس میں انہوں نے بلندی ورفعت کے آسمان کو چھولیا تھا،اس فن میں امام صاحب کی عظمت شان کا اندازہ ان تلامذہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے، جنہوں نے اس میدان میں خوب شہرت حاصل کی ہے، امام صاحب کے ان صوفیاء تلامذہ کے مقام ومرتبہ اور لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت ومحبت، خدمت خلق میں ان کی جانفشانی کو دیکھ کر امام صاحب کی عظمت ورفعت کا اعتراف کیا جاسکتا ہے، چندمشہور تلامذہ کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے:
حضرت براہیم بن ا دھمؒ
آپ بادشاہوں کی اولاد میں سے تھے ایک روز شکار کے لئے نکلے اور ایک لومڑی یا خرگوش کو ہکایا آپ اس کا پیچھا کررہے تھے کہ غیب سے آواز آئی اے ابراہیم! کیا تو اسی لئے پیداکیا گیا ہے، چنانچہ آپ اپنی سواری سے ا تر پڑے ایک مویشی کا معمولی جبہ پہن لیا اور جنگل کی راہ لی، کچھ عرصے بعد مکہ مکرمہ پہونچے وہاں سفیان ثوری اور فضیل بن عیاض کی صحبت اختیار کی، حضرت خضر علیہ السلام کے مرید تھے اور بے شمار مشائخ متقدمین کی صحبت اٹھا چکے تھے،امام ابو حنیفہ سے ربط خاص تھا، انہی سے تحصیل بھی کی تھی، حقائق تصوف کے بیان میں ان کے نادر مقولے اور لطائف ِنفیس خاص مقام رکھتے ہیں، حضرت جنید بغدادی کہتے ہیں علوم طریقت کی کنجیاں ابراہیم بن ادھم کی پاس ہیں۔(۱)
ابراہیم بن ادھم تقویٰ وپرہیزگاری میں بلند مقام پر فائز تھے، ان سے منقول ہے کہ اپنی روزی کو پاکیزہ بنالو پھر کوئی مضائقہ نہیں کہ تم رات کو تہجد نہ پڑھو اور دن میں نفلی روزہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) گنج مطلوب ترجمہ کشف المحجوب ص:۱۶۵