امام ابو حنیفہ نے روایوں کے تفقہ کی بنا پر ترجیح دی جیسا کہ امام اوزاعی نے سند کے عالی ہونے کی بنا پر ترجیح دی ہے اور یہی (تفقہ کی بنا پر ترجیح) ہمارے نزدیک مذہب منصور ہے۔
اجماع
امام صاحب کے نزدیک قرآن وحدیث کے بعد تیسرا اصول اجماع ہے، اس میں حضرات صحابہ کا اجماع بھی داخل ہے، اسی طرح اگر کسی مسئلے میں حضرات صحابہ کے درمیان اختلاف ہوتا تو اس میں سے جس صحابی کا قول قرآن وحدیث اور قواعد شریعت کے مطابق ہوتا آپ اس پر عمل کیا کرتے تھے، لیکن حضرات صحابہ کے اقوال سے آپ خروج نہیں کیا کرتے تھے، اسی طرح اجماع مجتہدین یعنی کسی زمانے کے مجتہدین کا کسی مسئلہ پر اتفاق کر لینا یہ بھی امام صاحب کے نزدیک ایک شرعی دلیل تھی اس لئے کہ آپ کے پیش نظر آپﷺ کا یہ ارشاد تھا إن أمتي لن تجتمع علي ضلالۃ فإذا رأیتم اختلافا فعلیکم بالسواد الأعظم۔(۱) میری امت گمراہی پر متفق نہیں ہوسکتی ہے، پس اگر لوگوں کے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف دیکھو تو بڑی جماعت کی پیروی کرو۔
موفق نے نقل کیا ہے:
وکان عارفا بحدیث أہل الکوفۃ شدید الاتباع بما کان علیہ ببلدہ۔آپ اہل کوفہ کی حدیث سے بہت آگاہ تھے اور ان پر بڑی سختی سے عامل رہتے تھے جن پر اہل کوفہ کا عمل ہوتا تھا (۲)اس سے بھی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اجماع فقہاء آپ کے نزدیک حجت تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ابن ماجہ، باب السواد الاعظم، حدیث نمبر:۳۹۵۰
(۲) مناقب ابی حنیفہ للموفق ۱؍۸۰