تیسری فصل
امام ابو حنیفہ اور تصوف
تصوف کی حقیقت اخلاق کی پاکیزگی ،باطن کی اصلاح،اپنا رشتہ اللہ تعالیٰ سے مضبوط کرنا، دنیا سے بے رغبتی، آخرت کی فکر اور اپنی زندگی کو زہدوتقویٰ سے آراستہ کرکے رذائل سے اپنے آپ کو پاک وصاف کرنا ہے، تمام عبادات میں صفات ِحسن پیداکرنا اور منکرات سے نفرت پیدا کرناہے اورانہی پاکیزہ صفات سے اپنے آپ کو متصف کرنے کو احادیث میں ا حسان کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن متعارف تصوف اور اس کا نام قرن اول اور قرن ثانی میں نہیں ملتا ہے، حدیث اور آثار صحابہ میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے، تصوف کی اصطلاح کب رائج ہوئی اور کس طرح علم باطن اور تزکیہ نفس میں مشغول حضرات کو صوفیہ کہا جانے لگا؟اس سلسلے میں مشہور صوفی بزرگ ابو القاسم القشیری اپنی انتہائی مقبول کتاب ’’الرسالۃ القشیریہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
جان لو خدا تم پر رحم کرے کہ رسول اللہﷺ کے بعد مسلمانوں کے لئے ان کے زمانہ میں کوئی نام بڑی فضیلت والا سوائے صحبت رسول ﷺ کے نہیں رکھا گیا،کیوں کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور فضیلت نہیں،تب ان کو صحابہ کہا گیا اور جب دوسرے زمانے والوں نے ان کو پایا تو جن لوگوں نے صحابہ کی صحبت حاصل کی ان کا نام تابعین رکھا گیا اور ان کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی نام نہ تھا پھر ان کے بعد