خلف بن ایوب (م۲۰۵ھ)
ترمذی کے راوی ہیں، ا نہوں نے امام ابو یوسف سے فقہ حاصل کی، علامہ ذہبی نے ا لفقیہ المحدث الحنفی الزاہد سے ان کا تعارف کرایا ہے، وہ فرماتے ہیں میں مختلف محدثین سے حدیثیں سنتا تھا، لیکن بعض اوقات حدیث کا صحیح پتہ نہیں چلتا تھا، بڑا افسوس ہوتا، بالآخر امام ابو حنیفہ کے پاس آکر آپ سے پوچھتا توآپ اس کی تصدیق کرتے اور میرا دل ٹھنڈا ہوجاتا تھا، مختلف سوانح نگاروں نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے، علم اللہ کی طرف سے حضور کے پاس آیا ا ور حضور سے صحابہ کی طرف آیا اور صحابہ سے تابعین کی طرف آیا اور تابعین سے امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھیوں کی طرف آیا، پس جو چاہے اس تقسیم سے راضی ہو اور جو چاہے اس سے ناراض ہو۔ (۱)
محدث عبد اللہ ابن داؤد(م۲۱۳ھ)
مشہور محدث ہیں فرماتے ہیں اہل اسلام پر نماز میں امام ابو حنیفہ کے لئے دعا کرنی لازم ہے کیوں کہ انہوں نے دوسروں کے لئے سنن وآثار کو محفوظ کردیا ہے۔(۲) ان کا قول ہے جو شخص جہالت کی ذلت سے نکلنا چاہے اور فقہ کی لذت سے لطف اندوز ہونا چاہے اسے چاہئے کہ امام ابو حنیفہ کی کتابوں کو پڑھے۔(۳) جب کوئی آثار یا حدیث کا قصد کرے تو اس کے لئے سفیان ہیں اور اگر ان کی باریکیوں کو معلوم کرنا چاہے تو ابو حنیفہ ہیں۔(۴)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) اخبار ابی حنیفہ واصحابہ
(۲) الطبقات السنیۃ۱؍۲۹-۸۹۴ ترجمہ زین بن ابراہیم، حیات الامام ابی حنیفہ للسید عفیفی ص:۵۴
(۳) اخبارابی حنیفہ واصحابہ ص:۷۶
(۴) عبد القادرالتمیمی، الطبقات السنیۃ فی تراجم الحنفیۃص۱؍۲۹، ترجمہ زین بن ابراہیم ڈیجیٹل لائبریری، الامام جلال الدین السیوطی، تبییض الصحیفۃ ص ۱۰۴، تحقیق محمد محمود حسن نصار دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۹۰ء