ماخوذ ہیں اور جن میں ائمہ کا اختلاف ہے ان میں امام ابو حنیفہؒ جو پہلو اختار کرتے ہیں وہ عموما قوی اور مدلل ہوتا ہے۔(۱)
شورائی نظام
فقہ حنفی کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ فقہ ایک شخص کی رائے پر مبنی نہیں ہے؛ بلکہ امام ابو حنیفہؒ نے جس جامع اور محیط طرز پر فقہ کی تدوین کا منصوبہ بنایا تھا، وہ انتہائی وسیع اور دشوار کام تھا، اس لیے آپ نے اتنے بڑے اور اہم ارادے کی تکمیل کے لیے اپنے شاگردوں میں سے چالیس جبال العلم محدثین وفقہاء، طریقِ تخریج واستنباط کے ماہر اور علم عربیت ولغت کے رمزشناس افراد کا انتخاب کیا اور ایک مجلس شوریٰ تشکیل دی، جب بھی کوئی مسئلہ در پیش ہوتا تو امام صاحب تمام اراکین شوریٰ سے استفسار کرتے، اگر تمام کی رائے کسی ایک امر پر متفق ہوجاتی تو امام ابو یوسفؒ منقح انداز میں اصول کی کتابوں میں درج فرمادیتے، اور اگر رائے مختلف ہوتی تو آزادانہ طور پر بحث کا سلسلہ جاری رہتا، کبھی کبھی ایک ایک مسئلہ پر مہینوں بحث کا سلسلہ جاری رہتا، پھر جب روشن صبح کی طرح دلائل واضح ہوجاتے اس کو لکھ لیا جاتا؛ موفق بن احمد مکی’’مناقب ابی حنیفہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’فکان یلقی مسئلۃ مسئلۃ وسمع ما عندہم ویقول ما عندہ ویناظرہم شہرا أو أکثر من ذلک حتی یستقر أحد الأقوال ثم یثبتہا أبو یوسف في الأصول۔(۲)
امام صاحب ایک ایک مسئلہ پیش کرتے اور ان کی رائے سنتے اور اپنا نظریہ بیان کرتے اور ایک ایک مہینہ؛ بلکہ ضرورت پڑتی تو اس سے بھی زیادہ عرصہ تک اس میں مناظرہ ومباحثہ کرتے رہتے؛ حتی کہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) علامہ شبلی نعمانی، سیرت النعمان، ص:۱۹۴، دار الکتاب دیوبند
(۲) موفق احمد مکی،مناقب ابی حنیفہ۲؍۱۳۳، دارالکتاب العربی بیروت ۱۹۸۱ء۔ مناقب ابی حنیفہ للکردری۲؍۵۷