فقہی مسائل میں شوریٰ کی شرعی حیثیت
اسلام میں شوریٰ کی ا فادیت واہمیت مسلم ہے، قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے انصار کے نظامِ شوریٰ کی تعریف وتوصیف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’وَأَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْْنَہُم‘‘(۱) اورآپﷺ کو مشورہ کی تلقین فرمائی: ’’وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ‘‘ (۲) احادیث میں بھی شوریٰ کی حکمتیں اور فضیلتیں مذکور ہیں، اسی لیے حضرات ِ صحابہ شورائی نظام پر عمل پیرا تھے، اور آپﷺ کے پردہ فرماجانے کے بعد سب سے پہلا مسئلہ ’’خلافت‘‘ کا صحابہ نے شوریٰ ہی کے ذریعہ حل کیا تھا، حضرت ابو بکرؓ اپنے زمانۂ خلافت میں شوریٰ کے ذریعہ ہی مسائل حل کیا کرتے تھے، بیہقی نے ’’السنن ا لکبری‘‘ میں میمون بن مہران کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ:
حضرت ابو بکرؓ کے پاس جب بھی کوئی مقدمہ آتا اور کتاب وسنت میں اس کا حل ملتا تو اسی کے ذریعہ فیصلہ فرماتے تھے اور اگر قرآن وسنت میں مسئلہ کا حل نہ معلوم ہوتا تو صحابہؓ کے پاس آتے اور صحابہ سے پوچھتے کہ میرے پاس ایسا مقدمہ آیا ہے، کیا تم میں سے کسی نے حضورﷺ سے اس طرح کے مقدمہ کا کوئی فیصلہ سنا ہے؟ بعض صحابہ حضورﷺ کا عمل بیان کرتے تو حضرت ابو بکرؓ اس پر عمل کرتے اور اللہ کی تعریف کرتے کہ ہمارے درمیان ایسے لوگ ہیں جو اپنے نبی کے علم کے محافظ ہیں، لیکن اگر حدیث سے بھی کوئی حل نہ ملتا، تو کبارِ صحابہ اور فقہاء صحابہ کو جمع کرتے ان سے مشورہ کرتے اور جب وہ لوگ کسی امر پر متفق ہوجاتے تو اسی کا فیصلہ فرمادیتے۔(۳)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) الشوریٰ:۳۸ (۲) آل عمران:۱۵۹
(۳) السنن الکبری للبیہقی ،باب ما یقضی بہ ا لقاضی ویفتی بہ۱۰؍۱۱۴-۱۱۵، حدیث نمبر: ۲۰۳۴۱-المصباح فی رسم المفتی ومناہج الافتاء ۱؍۱۱۱، کمال الدین احمد الراشدی، ماریہ اکادمی کراچی ۱۹۹۸ء