نے کہاقبلہ رخ ہو کر بیٹھ جاؤ، میں نے بائیں جانب سے بال منڈوانا چاہا،اس نے کہا سرکاداہنا حصہ پیش کرو، پھر میں خاموش بال بنوانے لگا تو اس نے کہا حج میں چپ نہیں رہنا چاہئے تکبیر کہے جاؤ، میں حجامت سے فارغ ہوکر گھر چلا تو اس نے کہا پہلے دو رکعت نماز پڑھ لو پھر کہیں جانا، میں نے تعجب سے پوچھا کہ یہ مسائل تم نے کہاں سیکھے بولا عطا بن ابی رباح(م۱۱۵ھ) کا فیض ہے(۱) مولانا شبلی نے اس واقعہ سے یہ قیاس لگایا ہے کہ امام صاحب کا یہ سفر تحصیل علم کے آغازکے زمانہ میں ہوا ہوگا۔
عطاء بن ابی رباح(م۱۱۵ھ)
جس زمانہ میں امام صاحب مکہ معظمہ پہونچے وہاں درس وتدریس کا بہت زور تھا، متعدد باکمال اور فن حدیث کے ماہرین کی علیحدہ علیحدہ درسگاہیں قائم تھیں، ان میں عطاء بن ابی رباح کا حلقہ درس سب سے زیادہ وسیع اور مستند تھا، عطاء مشہور تابعی تھے اور بہت سے صحابہ کے فیض یافتہ اور اجتہاد کے درجہ پر فائز تھے، مجتہدین صحابہ ان کے علم وفضل کے قائل تھے، عبد اللہ بن عمر اکثر فرماتے تھے کہ عطاء بن رباح کے ہوتے ہوئے لوگ میرے پاس کیوں آتے ہیں، حج کے زمانہ میں ہمیشہ ایک منادی اعلان کرتا تھا کہ عطاء کے سوا کوئی فتویٰ کا مجاز نہیں ہے(۲) امام صاحب استفادہ کی غرض سے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عقیدہ کے بارے میں سوال کیا اس پر امام صاحب نے فرمایا’’ میں اسلاف کو برا نہیں کہتا، گنہگار کو کافر نہیں سمجھتا، قضاء وقدر کا قائل ہوں، اس پر حضرت عطاء نے حلقہ درس میں شامل ہونے کی اجازت دے دی، چند ہی دنوں میں عطاء کے سامنے امام صاحب کی ذہانت اور طلب وجستجواور شوق ظاہر ہوگیا پھر جب امام صاحب آتے تو دیگر شاگردوں کو ہٹاکر امام صاحب کو اپنے پہلو میں بٹھاتے، عطاء۱۱۵ھتک زندہ رہے اس مدت میں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ابن خلکان، ابو العباس شمس الدین احمد بن حمد، وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان، ۳؍۲۶۲ ،باب عطاء بن ابی رباح ڈیجیٹل لائبریری
(۲) وفیات الاعیان وانباء ابناء الزمان ۳؍۲۶۱ ،باب عطاء بن ابی رباح