پڑھا کرتا تھا، یہ شخص امامت وخطابت کے فرائض بھی انجام دیتا تھا، ایک مرتبہ اس نے کہا میں ابو حنیفہ سے بہتر ہوں، کیوں کہ انہیں سترہ حدیثیں یاد تھیں اور مجھے ان سے کہیں زیادہ یاد ہیں،اس بات کی ا طلاع مولانا عبد الجبار کو پہونچی ، وہ بزرگوں کا نہایت ادب واحترام کیا کرتے تھے،انہوں نے یہ بات سنی تو ان کا چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا اور کہا اس نالائق (عبد العلی) کو مدرسہ سے نکال دو، جب وہ طالب علم مدرسہ سے نکالا گیا تو مولانا عبد الجبار غزنوی نے فرمایا، مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص مرتد ہوجائے گا، چنانچہ ایک ہفتہ نہ گزرا کہ وہ شخص مرزائی ہوگیا اور لوگوں نے اسے ذلیل کرکے مسجد سے نکال دیا،اس واقعہ کے بعد کسی نے مولانا عبد الجبار غزنوی سے سوال کیا، حضرت! آپ کو کیسے علم ہوگیا تھا کہ وہ عنقریب کافر ہوجائے گا؟ فرمایا، جس وقت مجھے اس کی گستاخی کی اطلاع ملی اس وقت بخاری شریف کی یہ حدیث میرے سامنے آگئی من عادی لي ولیا فقد آذنتہ بالحرب جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی، میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں، میری نظر میں امام ابو حنیفہ اللہ کے ولی تھے، جب اللہ کی طرف سے اعلان جنگ ہوگیا تو جنگ میں ہر فریق دوسرے کی اعلیٰ چیز کو چھینتا ہے، اس لئے ایسے شخص کے پاس ایمان کیسے رہ سکتا ہے؟ (۱)
مولانا عبد المنان وزیر آبادی(م۰ ۱۳۳ھ)
مولانا عبد المنان کا شمار اہل حدیث کے بڑے لوگوں میں ہوتا ہے آپ کو علم حدیث سے حد درجہ شغف تھا، مولانا ابراہیم سیالکوٹی نے لکھا ہے کہ علم حدیث کی اشاعت میںکوئی محاکمہ باقی نہیں چھوڑا، آپ بلا تردد تقریبا سارے پنجاب کے استاذ ہیں علم حدیث سے اسی شغف کی بنا پر آپ ائمہ دین خصوصا امام صاحب کا بڑا احترام کیا کرتے تھے اور امام صاحب کا تذکرہ بڑے عقیدت سے کیا کرتے تھے، تایخ اہل حدیث میں ہے:
آپ ائمہ دین کا بہت ادب کرتے تھے، چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) امام ابو حنیفہ کی محدثانہ جلالت شان ص:۳۹۰