۱۵۰ھ میں عالم ناسوت سے دار بقا کو چلے گئے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ امام صاحب کا شورائی نظام تقریبا تیس سال پر محیط ہے؛ لیکن بعض حضرات کی رائے ہے کہ ۲۲ سال کی مدت میں امام صاحب نے قانونِ اسلامی اور فقہ حنفی کو مدون کیا ہے، خیر یہ مدت تیس سال ہو یا بائیس سال، اس طویل المیعاد مدت میں اس شوریٰ نے کس قدر مسائل کا استنباط کیا، اس میں بھی علماء کے اقوال مختلف ہیں، بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ تعداد بارہ لاکھ نوے ہزار ہے، شمس الائمہ کردریؒ لکھتے ہیں کہ یہ مسائل چھ لاکھ تھے، علامہ موفق بن احمد مکیؒ نے بھی چھ لاکھ کا قول نقل کیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ فقہ حنفی کی کتابوں سے اس کی تائید ہوتی ہے، مولانا گیلانی کا خیال ہے کہ اگر ان روایات کو مبالغہ آمیز بھی قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ امام صاحب کے وضع کردہ اصول وکلیات سے بعد میں فقہاء نے جن مسائل کا استنباط کیا ان کی تعداد لاکھوں میں ہے، چوں کہ ان کی بنیاد امام صاحب کے کلیات پر قائم تھی، اس لئے انہیں بھی امام صاحب کی طرف منسوب کردیا گیا۔(۱) لیکن محققین کی رائے ہے کہ امام صاحب کی شوریٰ کے ذریعہ فیصل ہونے والا مجموعہ ۸۳ ہزار دفعات پر مشتمل تھا، جس میں ۳۸ ہزار مسائل عبادات سے متعلق تھے، باقی ۴۵ ہزار مسائل کا تعلق معاملات وعقوبات سے تھا، اور امام صاحب کو جب کوفہ سے بغداد جیل منتقل کیا گیا تب بھی تدوین فقہ کا سلسلہ جاری رہا اور امام محمدؒ کا تعلق امام ابو حنیفہؒ سے یہیں قائم ہوا اور اضافہ کے بعد اس دستوری خاکہ میں کل مسائل کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ گئی۔(۲)
تدوین فقہ کے بانی
امام صاحب نے فقہی قانون کا مجموعہ تیار کرایا اور جس ترتیب پر اسے قائم کیا آپ خود ہی اس کے موجد تھے، آپ کے سامنے کوئی نمونہ نہیں تھا جس سے آپ نے کلی یا جزئی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی ص:۲۶۹
(۲) دفاع امام ابو حنیفہ،ص:۱۲۶، فتاویٰ رحیمیہ۱؍۱۳۶، سیرۃ النعمان،ص:۱۵۴