کے ایک فرزند تھے اسماعیل بن حماد، انہیں مسند درس پر بٹھایاگیا،لیکن وہ لغت اور ادب کی طرف زیادہ مائل تھے، آخرموسیٰ بن کثیر کو مسند افروزی کا شرف دیا گیا اس لئے کہ وہ حماد کے شاگردوں میں تجربہ کار اور عمرکے لحاظ سے ممتاز تھے، وہ اگر چہ فقہ میں بہت ماہر نہ تھے، لیکن اکثر بزرگوں کی صحبتیں اٹھائی تھی اس وجہ سے لوگوں پر ان کا خاص اثر تھا، چند روز حلقہ درس ان کی وجہ سے قائم رہا وہ حج کو چلے گئے تو تمام بزرگوں نے متفقہ طور پر امام صاحب کا انتخاب یہ کہہ کر کیا إن ہذا الخزاز حسن المعرفۃ وإن کان حدثا یہ ریشم فروش اگر چہ نوعمر ہے،لیکن فقہ کی معرفت اچھی رکھتا ہے۔(۱)امام صاحب نے اصرار اور ضرورت کو دیکھ کر اس منصب عظیم کو قبول فرمالیا،اس طرح عبد اللہ بن مسعود سے جو فقہ کا سلسلہ جاری تھا آپ اس کے وارث وامین قرار پائے۔
در س وتدریس کا آغاز
امام صاحب نے اگر چہ حضرت حماد کے شاگردوں کے اصرار پر یہ منصب قبول کرلیا،لیکن ابتداء میں آپ کو تردد رہتا تھا، انہی دنوں امام صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ میں حضورﷺ کی قبر مبارک کھود کر آپ کی ہڈیاں چن رہا ہوں، یہ دیکھ کر آپ گھبراگئے اور طرح طرح کے خیالات دل میں آنے لگے جو حلقہ درس کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے میں مانع بن رہے تھے، آپ فرماتے ہیں کہ میں نے خوف کی وجہ سے مجلس میں آنا جانا بند کردیا اور لوگوں سے صفائی کے ساتھ کہہ دیا، بالآخر ابن سیرین سے خواب کی تعبیر معلوم کی گئی تو فرمایا کہ یہ خواب دیکھنے والاعلم کو زندہ کرے گا اور خواب میں ’’مردہ علم‘‘ کو زندہ کرنے کی طرف اشارہ ہے، تب جاکر امام صاحب نے حلقہ درس کی ذمہ داریوں کو قبول کیا۔(۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) الصیمری، ابو عبد اللہ حسین بن علی،اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص:۷، دارالکتب العربی بیروت ۱۹۷۶ء
(۲) ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر، الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الائمۃ الفقہاء ص: ۱۴۵، دارالکتب العلمیہ بیروت ۔ مناقب للموفق ۱؍۶۱