ہاتھ پر بیعت کی تلقین کرتے رہے ،ان کے ساتھ خروج کو پچاس گنا نفلی حج سے عظیم قرار دیتے تھے ،ابو اسحاق فزاری سے امام صاحب نے کہا تھا کہ ’’تیرا بھائی جو ابراہیم کا ساتھ دے رہا ہے ،اس کا یہ فعل تیرے اس فعل سے کہ تو کفار کے خلاف جہاد کرتا ہے افضل ہے ، ، ان اقوال کے صاف معنی یہ ہیںکہ امام صاحب کے نزدیک مسلم معاشرہ کی اندرونی نظام کی بگڑی ہوئی قیادت کے تسلط سے نکالنے کی کوشش باہر کے کفار سے لڑنے کی بہ نسبت بدرجہا فضیلت رکھتی ہے ،ظالم حکومت کے خاتمہ کے لئے امام صاحب کا حیرت انگیزکارنامہ یہ تھا،کہ منصور کا نہایت معتمد جنرل حسن بن قحطبہ کوآپ نے نفس ذکیہ اور ابراہیم کے خلاف جنگ پر جانے سے روک دیاتھا ،اس کا باپ قحطبہ وہ شخص ہے جس کی تلوار نے ابو مسلم کی تدبیر وسیاست سے مل کر سلطنت عباسیہ کی بنا رکھی تھی،اس کے مرنے کے بعد حسن اس کی جگہ سپہ سالاراعظم بنایاگیا،منصور کو سب سے زیادہ اسی پر اعتما د تھا ،لیکن حسن کوفہ میں رہ کر امام صاحب کا گرویدہ ہوگیاتھا،اور امام صاحب کے اشارہ پر اس نے جنگ میں جانے سے انکار کردیا ،امام صاحب کی سیاسی بصیرت اور نفس ذکیہ کی اس درجہ حمایت سے تقریبا منصور بھی ناامید ساہوچکا تھا ،بلکہ اس نے کوفہ سے راہ فرار اختیار کرنے کے لئے تیز رفتار سواری کا انتظام بھی کر لیا تھا ، اگر تقدیرعباسیو ںکا ساتھ نہ دیتی تو یقینا عباسی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جاتا، لیکن تقدیر ،تدبیر پر غالب آگئی اور نفس ذکیہ اوران کے بھائی ابراہیم شہید کر دئے گئے اور منصور اپنی حکومت بچانے میں کا میاب ہوگیا ،اس پورے واقعہ میں امام صاحب کی سر گرمی کھل کر سامنے آجاتی ہے ،اور امام صاحب کاسیاسی مسلک عملی طور پرنمایاں دکھائی دیتا ہے ۔
امام صاحب اور عہدہ قضاء
منصور، نفس ذکیہ کے خروج کے واقعہ میں امام صاحب کی سرگرمی سے بخوبی واقف تھا ،جس کی وجہ سے منصور کے دل میںامام صاحب کے خلاف گرہ بیٹھ گئی تھی ،لیکن