وحق گوئی سے اچھی طرح واقف تھا، اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اگر امام صاحب ہمارے ساتھ رہیں گے تو مختلف مسائل میں اپنی بے باک اور جرأت مندانہ رائے ظاہر کرکے ہماری اور حکومت کی شان وشوکت کو زد پہونچاتے رہیں گے، منصور نے امام صاحب سے فرمایا آپ اپنے وطن تشریف لے جائیں ،آخر میں بڑی لجاجت سے بطور وصیت اور وداعی ہدایت کے اس نے کہا مگر اس کا ذرا خیال رکھا کیجئے کہ ایسا فتوی لوگوں کو نہ دیجئے جس سے آپ کے امام(خلیفہ) کی ذات پر حرف آجائے آپ جانتے ہیں کہ اس قسم کے فتوؤں سے خوارج (یعنی حکومت کے باغیوں ) کو حکومت کے خلاف دست درازی کا موقع مل جاتا ہے ۔(۱)
ظالم حکومت کے خلاف خروج
جس وقت منصور بغداد کی تعمیر میںمصروف تھا ،اسی ایام میںمدینہ میں محمد بن عبداللہ نفس ذکیہ اور بصرہ میںان کے بھائی ابراہیم نے خروج کیا، منصور اس بغاوت کو ختم کرنے کے لئے کوفہ آیا اور عیسیٰ بن موسیٰ کو مدینہ کی طرف روانہ کیا ۔امام صاحب چونکہ اس حکومت کو ظالم حکومت تصور کرتے تھے ،اور امام صاحب کی رائے تھی کہ ظالم حکومت نہ صرف باطل ہے ،بلکہ اگر صالح اور مفید انقلاب ممکن ہو ،افراد مہیا ہوں،اور کوئی ایسا قائد ہو جن کے دین پر اعتماد کیا جاسکتا ہو ،تو ایسی صورت میں خروج کرنا واجب ہے ،نفس ذکیہ کا تعلق حسنی سادات سے تھا ،اس لئے مدینہ ،عراق ،اور مختلف اسلامی ریاستوںمیںلوگ ان کی حمایت میں کھڑے ہو گئے ،امام صاحب نے موقع غنیمت جان کر ابراہیم بن عبداللہ کی کھل کر حمایت کردی ،اور آپ اس درجہ اس کی حمایت پر آمادہ تھے کہ آپ کے شاگردوں کو خیال ہو گیاکہ ہم لوگ باندھ لئے جائیںگے ، آپ اور آپ کے تلامذہ حکومت کے عتاب اور عذاب میں گرفتار کئے جائیں گے، لیکن امام صاحب ابراہیم کا ساتھ دینے اوران کے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی ص:۳۷۷