کی ایک جائز صورت نکل آتی ہے، مولانا گیلانی کی رائے ہے کہ ہوسکتا ہیکہ امام صاحب بھی عام مسلمانوں کی امانتوں کو اس کی اجازت سے اپنے استعمال میں لے آتے ہوں،یعنی یہ کہہ دیتے ہوں گے کہ اس مال کو اگر کسی کاروبار میں لگاؤں تو مجھے اس کی اجازت ہونی چاہئے، اس طرح گویا وہ شخص اپنی امانت کو بطور قرض کے امام صاحب کے پاس جمع کردیتا تھا، یہ صورت دونوں کے لئے مفید ہے، امانت رکھنے والے کا مال ہر طرح کی ہلاکت سے بچ جاتا ہے اور امین کو اس مال سے نفع حاصل کرنے کی اجازت ہوجاتی ہے، اس کے ساتھ بہت سے لوگوں کے اموال بطور امانت بھی رکھے جاتے تھے جس میں امام صاحب کوئی تصرف نہیں کرتے تھے، اس خطیر رقم کی حفاظت امانت اور اس کی واپسی کا اجتماعی نظام، اس کے لئے دفاتر، رجسٹر، ملازم،حساب دانوں کی ضرورت اور فراہمی کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سود وربا سے پاک خالص اسلامی بنکاری کا ایک مکمل نظام امام صاحب نے قائم کردیاتھا، مال کی حفاظت وصیانت اور مضاربت کے اصول کو ایک مربوط منصوبہ بندی کی شکل میں لوگوں کے سامنے سب سے پہلے آپ نے پیش کیا،اور پھر اسے عملا برت کر کامیابی تک پہنچایا۔
مولانا گیلانی کے بقول امانت کے اس مستحکم اور مفید اصول کو مد نظر رکھ کر امام صاحب نے لوگوں کے اموال کو تجارت میں لگادیا تھا، امام صاحب کی تجارت کی وسعت کی یہی حقیقت ہے، لیکن جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ اس حکمت سے قطع نظر بھی تجارت کے وسیع ہونے کی مناسب توجیہ کی جاسکتی ہے، بلکہ شیخ زہرہ کے مطابق امام صاحب ابتداء سے ہی بہت متمول اور صاحب ثروت تھے، اس صورت میں کسی توجیہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
دوست واحباب کے ساتھ امام صاحب کاتجارتی معاملہ
امام صاحب بہت بڑے تاجر تھے،لیکن صرف دولت اکٹھا کرنا ان کا مقصود نہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی ص :۱۲۲ مکتبہ الحق ممبئی