اس کے مرتبے میں کوئی مصدر شریعت نہیں ہے،البتہ احادیث متواتر بھی ثبوت کے اعتبار سے قطعی الدلالت ہیں، اسی لئے امام صاحب خبر واحد کے ذریعہ کتاب اللہ کے نسخ کو جائز نہیں قرار دیتے ہیں اور قرآن کریم اور خبر واحد میں بظاہر تعارض ظاہر ہو تو حتی الامکان دونوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ کتاب اللہ کو ترجیح دیتے ہیں، نماز میں قرأت قرآن کے سلسلے میں حکم ہے فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ(۱) جس سے مطلقا قرآن کریم کی قرأت کا حکم مستفاد ہوتا ہے اور اس میں بھی اختیار ہے کہ جو آسان ہو اس کی تلاوت کی جائے، دوسری طرف حدیث ہے لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب۔(۲) جس سے سورہ فاتحہ کا پڑھنا ضروری معلوم ہوتا ہے، امام صاحب نے کتاب اللہ کی رعایت کرتے ہوئے نفس قرأت کو رکن قرار دیا اور حدیث کی وجہ سے سورہ فاتحہ کو واجب قرار دیا تاکہ کسی حد تک دونوں پر عمل ہوجائے اور ہر ایک کے مرتبے کی رعایت ہوجائے ، اسی اصول کی بنیاد پر امام صاحب نے نماز میں قرآن کی آیت ارْکَعُوا (۳)کی بنا پر رکوع کو فرض قرار دیا اور خبر واحد، حدیث المسئ صلاتہ(۴)کی بنا پر طمانینت اور سکون سے رکوع ادا کرنے کو واجب قرار دیا۔(۵)
احادیث وآثار
جیسا کہ اوپر معلوم ہوا کہ اگر کوئی مسئلہ کتاب میںنہ ملے تو امام صاحب احادیث کی طرف رجوع فرماتے ہیں جس سے معلوم ہوگیا کہ امام صاحب کے فقہ کی دوسری اہم بنیاد احادیث مبارکہ ہے، احادیث رسول میں امام صاحب قولی اور فعلی روایت میں فرق کیا کرتے تھے اور قولی روایت کو فعلی روایت پر ترجیح دیتے تھے، اس لئے فعل میں اختصاص کا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) المزمل:۲۰ (۲) صحیح ا لبخاری، باب وجوب القراء ۃ للامام، حدیث نمبر:۷۵۶
(۳) الحج:۷۷ (۴) صحیح البخاری، باب وجوب القراء ۃ للامام، حدیث نمبر:۷۵۷
(۵) وہبی سلیمان غاوجی،ابو حنیفہ النعمان امام الائمۃ الفقہاء ص: ۱۳۳ ، دارالقلم، دمشق