لیکن ان کو حدیث کی اتنی معرفت نہیں ہے اس پر عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا تم لوگ یہ بات کیوں کہتے ہو کہ انہیںحدیث کی معرفت نہیں ہے، ایک مرتبہ ان سے سوال کیا گیا کہ رطب کی بیع تمرسے جائز ہے یا نہیں، انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ہے تو لوگوں نے کہا کہ حضرت سعد کی حدیث اس کے خلاف ہے تو امام صاحب نے فرمایا وہ حدیث شاذ ہے، زید بن عیاش کی روایت قابل قبول نہیں ہے، جو شخص حدیث اور اس کے راویوں کے معاملے میں اس طرح درک رکھتا ہو اس کے بارے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں حدیث کی معرفت نہیں تھی؟ (۱)
امام ابوحنیفہ کی رائے یا تفسیر حدیث
ایک دفعہ سلمہ بن سلیمان نے ان سے عرض کیا، آپ نے امام ابو حنیفہ کی رائے کو اپنی کتابوں میں تو شامل کرلیا ہے، مگر امام مالک کی رائے کو نہیں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا اس لئے کہ وہ مجھے رائے نظر نہیں آئی، علامہ ابن عبد البر نے اس واقعہ کو سلمہ بن سلیمان کے حوالے سے یوں نقل کیا ہے:
قلت لابن المبارک وضعت من رأي أبي حنیفۃ ولم تضع من رأي مالک قال لم أرہ علما۔(۲)
آپ نہ صرف امام صاحب کی رائے کو پسند کرتے تھے ؛بلکہ ان کی رائے کو حجت تسلیم کرتے تھے، چنانچہ فرماتے تھے کہ ابو حنیفہ کی رائے کا لفظ مت کہا کرو بلکہ (ان کی رائے کو) حدیث کی تفسیر کہو یعنی آپ کی ا پنی کوئی ذاتی رائے نہیں ہوتی ہے، بلکہ بعینہ کسی حدیث کی تفسیر ہوتی ہے، سوید بن نضر کا بیان ہے:
سمعت ابن المبارک یقول لا تقولوا رأي أبي حنیفۃ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) صیمری، قاضی ابوعبد اللہ،حسین بن علی اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص ۱۲، دارالکتاب العربی بیروت ۱۹۷۶ء
(۲) ابن عبد البر ۲؍۱۱۰۷ دار ابن الجوزی، المملکۃ العربیہ السعودیہ،جامع بیان العلم وفضلہ