کی داد دیجئے ،سر اٹھایا اور چٹکی میںحل فرمادیا ،امام صاحب نے فرمایا صاحب واقعہ آج عصر کی نماز پڑھ لے اور عصر کی نماز سے فراغت کے بعد اپنی بیوی سے وطی کرلے پھر جب سورج غروب ہوجائے تو یہ شخص غسل کر لے اور مغرب اور عشاء کی نماز پڑھ لے طلاق واقع نہیں ہوگی اور تینوں قسمیں پوری ہوجائیں گی ۔ (۱)
مسئلہ یہ ہے کہ شریعت کی اصطلاح میںرات دن کے تابع ہوتی ہے ،لہذاجب سورج غروب ہوجاتا ہے تو اسی وقت سے اگلا دن شمار ہونے لگتا ہے ،مثلاًعید کا چاند نظر آتے ہی عید کا حکم لگایا جاتا ہے ،اسی حکم کے پیش نظر صاحب واقعہ کا غسل آج کے دن میںشمار نہیںہوگا ؛بلکہ غروب کے بعد نہانا گویا کل آئندہ کا عمل ہے۔
امام صاحب کا حکیمانہ فیصلہ
کوفہ کے ایک شخص نے بڑے دھوم دھام سے ایک ساتھ اپنے دو بیٹوں کی شادی کی ،ولیمہ کی دعوت میں تمام اعیان واکابر موجود تھے ،مسعر بن کدام ،حسن بن صالح ،سفیان ثوری ،امام اعظم بھی شریک دعوت تھے ،لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک صاحب خانہ بدحواس گھر سے نکلااور کہا ’’غضب ہوگیا ‘‘زفاف کی رات عورتوں کی غلطی سے بیویاںبدل گئی جس عورت نے جس کے پاس رات گزاری وہ اس کا شوہر نہیںتھا۔
سفیان ثوری نے کہا امیر معاویہ کے زمانے میں ایسا واقعہ پیش آیا تھا اس سے نکاح پر کچھ فرق نہیں پڑتا ہے البتہ دونوں کو مہر لازم ہوگا،مسعر بن کدام،امام صاحب کی طرف متوجہ ہوئے کہ آپ کی کیا رائے ہے ،امام صاحب نے فرمایا پہلے دونوں لڑکے کو بلایا جائے تب جواب دونگا ،دونوں شوہر کو بلایا گیا اما م صاحب نے دونوں سے الگ الگ پوچھا کہ تم نے جس عورت کے ساتھ رات گزاری ہے اگر وہی تمہارے نکاح میںرہے کیا تمہیں
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) عقود الجمان ص :۲۷۷