کے نفع کی کیا حالت ہوگی اور یہ تجارت کا صرف ایک ذریعہ ہے، اس کے علاوہ مختلف طریقوں سے تجارت کی جارہی تھی۔
ایکسپورٹ امپورٹ
امام صاحب کی تجارت وسیع پیمانہ پر تھی، کوفہ میں بہت بڑا اور مشہور کپڑے کا کارخانہ تھا، اس کے ساتھ کوفہ میں خز کی بہت بڑی دکان بھی تھی، اوردوسرے شہروں سے یہاں کپڑا منگایا جاتا تھا اور دوسرے شہروں میں خاص طور پر مرو، نییشاپور، بغداد اور بصرہ وغیرہ علاقے میں آپ کے ایجنٹ تھے، جہاں یہ لوگ امام صاحب کے مال کو فروخت کیا کرتے تھے اور وہاں کے مشہور کپڑوں کو کوفہ روانہ کرتے تھے، گویا امام صاحب کا بہت بڑا ایکسپورٹ امپورٹ کا بزنس تھا، خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں لکھا ہے کہ قیس بن ربیع ہم سے امام ابو حنیفہ کے متعلق یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب بغداد سرمایہ بھیجتے تھے اور یہاں کی چیزیں اس سرمایہ سے خریدی جاتی تھیں اور کوفہ لادکر روانہ ہوتی تھیں۔ (۱)
امام صاحب کے شریک تجارت
جب امام شعبی کے توجہ دلانے پر امام صاحب نے حدیث وفقہ کی طرف توجہ دی تو بازار آنا جانا اور از خود تجارت کرنا بہت کم ہوگیاتھا، لیکن تجارت کی وسعت میں کمی نہیں آئی تھی، کیوں کہ امام صاحب کی تجارت میں بہت سے افراد شریک تھے یا علمی مشغولی کی بنا پر امام صاحب نے چند معتمد لوگوں کو اپنی تجارت میں شریک کرلیا تھا اور بظاہر قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مال تمام کا تمام امام صاحب کا تھا اور یہ حضرات محنت کرکے امام صاحب کے مال کو فروخت کیا کرتے تھے، گویا مضاربت کی صورت رائج تھی کہ مال امام صاحب کا تھا اور محنت دوسرے حضرات کی تھی، اس سلسلے میں سب سے اہم نام حفص بن عبد الرحمن کا ہے جنہوں نے تیس سال تک امام صاحب کے ساتھ کام کیا، حفص بن عبد الرحمن نیشاپور کے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) موفق احمد مکی، مناقب ابی حنیفہ ۱؍۲۴۱