جمعہ شوال ۱۵۰ھ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔(۱)
نمازِ جنازہ اور تدفین
امام صاحب کے انتقال کی خبر تمام شہر میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور سارا شہر امنڈ آیا ، حسن بن عمارہ (جو آپ کے استاذ بھی تھے) نے آپ کو غسل دیا، غسل کے وقت حسن بن عمارہ روتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ آپ پررحم فرمائے، آپ نے تیس سال تک افطار نہیں کیا اور نہ چالیس سال سے رات کو آرام کیا، آپ ہم سب میں سب سے زیادہ عابد ،سب سے زیادہ پرہیز گار تھے۔ (۲)
غسل سے فارغ ہوتے ہوتے لوگوں کی بہت زیادہ کثرت ہوگئی، پہلی نماز جو حسن بن عمارہ نے پڑھائی تھی اس میں پچاس ہزار لوگ شریک تھے، آپ کے جنازے کی نماز چھ مرتبہ پڑھی گئی اور دفن کے بعد چالیس دن تک آپ کی قبر پر لوگ نماز جنازہ پڑھتے رہے، خلیفہ منصور نے بھی آپ کی نماز جنازہ قبر پر جاکر پڑھی، امام صاحب کی وصیت کے مطابق آپ کو خیزران کے قبرستان میں دفن کیا گیا، آپ کے خیال میں وہی جگہ ایسی تھی جو مغصوبہ نہیں تھی۔(۳)
اس وقت ان ممالک میں بڑے بڑے ائمہ مذاہب موجود تھے، بعض خود امام صاحب کے استاذ تھے ، سب نے آپ کے اس فانی دنیا سے کوچ کرنے کا رنج کیا اور تأسف آمیز کلمات کہے، ابن جریج مکہ میں تھے سن کر کہا انا للہ علم جاتا رہا، شعبہ بن حجاج نے جو امام صاحب کے استاذ اور بصرہ کے امام تھے نہایت افسوس کیا اور کہا کوفہ میں اندھیرا ہوگیا، ان کے ساتھ کوفہ کی فقہ بے نور ہوگئی۔ (۴)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) شمس ا لدین ذہبی، مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ ص: ۴۸ (۲) مناقب ابی حنیفہ للموفق ۱؍۲۱۳
(۳) الجواہر المضیئہ ۲؍۵۰۲ ،میرمحمد کتب خانہ کراچی (۴) الانتقاء ص :۱۲۶