لگوائے جس سے امام صاحب کا سارا بدن لہو لہا ن ہوگیا ،خلیفہ کے چچا عبدالصمدبن علی نے ان کی سخت ملامت کی کہ یہ تم نے کیا کیا ایک لاکھ تلواریں اپنے اوپر کھچوالیںیہ عراق کافقیہ ہے،بلکہ پورے مشرق کا فقیہ ہے ،لاکھوں لوگ اس کے عقیدت مند ہیں اور ان کے نام پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا فخر سمجھتے ہیں، منصور اس پر نادم ہوا اور فی تازیانہ ایک ہزار درہم کے حساب سے تیس ہزار درہم امام صاحب کو بجھوائے، لیکن امام صاحب نے لینے سے انکار کر دیا ،آپ سے کہا گیا لے کر خیرا ت کر دیجئے جواب میںارشاد فرمایا ’’کیا اس کے پاس کوئی حلال مال بھی ہے،،اسی زمانہ میں جب پے درپے تکلیفیں سہتے ہوئے امام کا آخری وقت آگیا تو انہوں نے وصیت کی کہ ’’بغداد کے اس حصے میںان کو دفن نہ کیا جائے جسے شہر بسانے کے لئے منصور نے لوگوںکی املاک میںسے غصب کرلیا تھا ،چنانچہ مقام خیز ران امام صاحب کی نگاہ میں مغصوبہ نہ تھا اس لئے وہیں امام صاحب کو دفن کیا گیا، انتقال کے بعد منصور بھی قبر پر نماز پڑھنے کے لئے آیا جب وصیت کا حال سنا تو چیخ اٹھا کہ ابوحنیفہ زندگی اور موت میںتیری پکڑ سے کون بچا سکتا ہے ۔(۱)
حضرت امام ؒکی حق گوئی
امام صاحب کے نزدیک اظہار رائے کی آزادی کو بڑی اہمیت تھی اور یہ ہر مسلمان اور ہر شہری کا بنیادی حق تھا ،امام صاحب اظہار رائے کی آزادی بڑی بے باکی سے استعمال کرتے تھے ،اور اس سلسلے میں سخت سے سخت تکلیف کی بھی پروا نہیں کرتے تھے جس زمانہ میں امام صاحب تعمیر بغداد کے سلسلے میں منصور کے ساتھ تھے ،ان دنوں کا واقعہ ہے کہ منصورکو موصل والوںکی بغاوت کی اطلاع ملی ،دربار میں امام صاحب بھی بیٹھے تھے ، منصور نے مجلس کی طرف خطاب کرکے کہا کہ موصل والوں نے یہ معاہدہ مجھ سے کیا تھاکہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) خلا فت وملوکیت ص:۲۳۷