قریب تر جواب دیا ہے، سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے کاروبار کے لئے بظاہر کافی سرمایہ کی ضرورت ہے، امام صاحب خاندانی اعتبار سے اتنے مالدار نہیں تھے کہ جس سے مرو، نیشاپور، بغداد اور اسی قسم کے دوسرے شہروں میں تجارتی لین دین کو پھیلایا جاسکے، پھر امام صاحب کے پاس اتنا سرمایہ کہاں سے آیا؟اس کا ایک جواب تو یہ دیا جاسکتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں حضرت امام کا کاروبار بھی معمولی درجہ کا ہو اور آہستہ آہستہ اس کاروبار کو ترقی ہوتی چلی گئی، اس میں کوئی ا ستحالہ نہیں ہے،بلکہ یہ ممکن اور قرین قیاس بات ہے،لیکن مولانا گیلانی نے جو تفصیل کی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ لوگ حضرت امام صاحب کے پاس بہت کثرت سے امانتیں رکھتے تھے، وکیع کے صاحبزادے حضرت سفیان کا قول ہے کہ امام ابو حنیفہ بہت بڑے تھے امانت میں (۱)موفق احمد مکی کا بیان ہے کہ ایک تیلی نے ایک لاکھ ستر ہزار درہم بطور امانت جمع کی تھی(۲)جب حضرت امام صاحب کا انتقال ہوا تھا اس وقت ان کے گھر میں پانچ کڑوڑ کی امانتیں لوگوں کی تھیں(۳)اور ظاہر ہے کہ اپنے پیرانہ سالی اور ضعف کی بنا پر انہوں نے حتی الوسع لوگوں تک ان کی امانتیں پہنچادی ہوں گی، لیکن جن امانتوں کو واپس نہیں کیا جاسکا اس کی تعداد پانچ کڑوڑ تھی۔
غیر سودی بینک کا قیام
امانتوں کے سلسلے میں اصول میں یہ ہے کہ اگر امانتیں امین کے پاس سے ضائع ہوجائیں تو امین پر اس کا ضمان نہیں ہے، اسی لئے یتیم کے مال کی حفاظت کے سلسلے میں فقہاء نے اصول بتایا کہ کسی مالدار کے پاس بطور قرض رکھ دیا جائے ، اس لئے کہ قرض کے ہلاک ہونے میں ضمان لازم ہوتا ہے اس طرح یتیم کا مال محفوظ رہے گا، اصلی فائدہ تو اس طریقہ کار کے اختیار کرنے میں یتیموں کا ہی ہے، لیکن ضمنا عام مسلمانوں کے لئے بغیر سودی قرض
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) موفق احمد مکی، مناقب ابی حنیفہ ۱؍۱۹۵ دارالکتب العربی بیروت ۱۹۸۱ء، مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ للذہبی ص:۴۱
(۲) موفق احمد مکی ۱؍۲۰۰ (۳) مناقب ابی حنیفہ ۱؍۱۹۸