ہے : التاجر الصدوق الأمین مع النبیین والصدیقین والشہداء۔(۱) کہ سچا امانت دار تاجر کل قیامت میں انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا، تاجر کی لئے دیانت اور تقویٰ سب سے لازمی اور ضروری عنصر ہے، اگر تاجر میں یہ صفت ہو توتجارت آدمی کے جنت میں جانے کا سبب ہے اور اس کے فقدان کی صورت میں جہنم میں جانے کا سبب ہے، امام صاحب کی دیانت داری اور امانت داری اس قدر مشہور اور مسلّم تھی کہ لوگ اپنی قیمتی اشیاء آپ کے پاس امانت رکھتے تھے، آپ کی کاروباری دیانت کا اس سے اندازہ لگائے کہ آپ اس کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے کہ ایک روپیہ بھی ناجائز طریقہ پر آپ کے پاس نہ آنے پائے، تمام کام کرنے والوں کو سخت ہدایت تھی کہ کپڑے کا وہ تھان جس میں کچھ عیب ہو علیحدہ رکھو اور خریدار کو اس سے واقف کراؤ۔
ایک مرتبہ امام صاحب نے حفص بن عبد الرحمن کے پاس کپڑے کا ایک تھان بھیجا اور ہدایت دی کہ اس میں عیب ہے، خریدار کو عیب بتا کر فروخت کرنا، لیکن حفص بن عبد الرحمن کپڑا فروخت کرتے وقت عیب بتانا بھول گئے، جب امام صاحب کو اس واقعہ کی اطلاع ملی توآپ نے بہت افسوس کا اظہار فرمایا اور تمام کپڑے کی قیمت کو خیرات کردیا۔(۲)
خیر خواہی
حضور پاکﷺ کا ارشاد ہے: الدین النصحیۃ(۳)کہ دین سراپا خیرخواہی کا نام ہے، اللہ تعالیٰ،اس کے رسول، ان کی کتابوں اور ائمہ دین اور عام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کی جائے، حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی نے ایک اونٹ خریدا، بائع نے اس کی قیمت ایک سو دینار مقرر کی، حضرت جریر نے کہا نہیں، اس کی قیمت اس سے زیادہ ہے، اس
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) سنن الترمذی، باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبی ایاہم، حدیث نمبر:۱۲۰۹
(۲) خطیب بغدادی، حافظ ابوبکر احمد بن علی، تاریخ بغداد ۱۳؍۳۵۶، دارالکتب العملیہ، بیروت، ۱۹۹۷ء
(۳) صحیح مسلم، باب بیان ان الدین النصیحۃ، حدیث نمبر:۵۵