کوفہ
کوفہ کی سرزمین علم وفن کے اعتبار سے ایک ممتاز مقام رکھتی ہے، حضرت عمرؓ نے اسے آباد کیا تھا، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے ۱۷ھ میں اس شہر کی بنیادرکھی تھی، بہت جلد اس شہر کو خوب ترقی ہوگئی، یمن اور دیگر ممالک سے لوگ یہاں آکر آباد ہونے لگے، حضرت علیؓ نے اس شہر کو دارالخلافہ قرار دیا، ایک ہزار پانچ سوسے زائد صحابہؓ نے کوفہ کو اپنا وطن بنایا،جس میں چوبیس وہ صحابہ تھے جنہوں نے غزوہ بدر میں شرکت کی تھی، کوفہ چوں کہ نو مسلم افراد کا مسکن تھا، اس لئے بہت سے بڑے بڑے اہل علم صحابہ کو ان کی تعلیم کے لئے بھیجا گیا تھا، خاص طور پر صحابہ میں سب سے زیادہ فقیہ صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود کو وہاں معلم بنا کر بھیجا گیا۔
ان بزرگوں کی وجہ سے حدیث وروایت کے چرچے پھیل گئے اور کوفہ کا ایک ایک گھر علم حدیث کا مدرسہ بن گیا، امام صاحب میں حدیث کے حصول کا غایت درجہ شوق تھا، آپ نے کوفہ کے ہر محدث سے استفادہ کیا اور کوفہ میں خاص کر عامر شعبی بڑے محدث میں شمار ہوتے تھے، پانچ سو صحابہ کی زیارت سے مشرف ہوچکے تھے، عراق، عرب، شام میں چار شخص استاذ کا مل تسلیم کئے جاتے تھے، ان میں ایک یہ تھے، امام زہری کہا کرتے تھے کہ عالم صرف چار ہیں مدینہ میں ابن المسیب، بصرہ میں حسن، شام میں مکحول اور کوفہ میں شعبی،اور امام شعبی کی ہی رہنمائی سے امام صاحب علم کی طرف متوجہ ہوئے تھے، آپ نے امام شعبی سے بھی حدیث کی سند حاصل کی، بلکہ جس طرح فقہ میں حماد بن ابی سلیمان آپ کے اہم استاذ ہیں تو اسی طرح حدیث میں عامر شعبی آپ کے خاص استاذ ہیں، علامہ ذہبی نے عامر بن شرحبیل شعبی کے بارے میں لکھا ہے : وہو أکبر شیخ لأبي حنیفۃ: وہ ابو حنیفہ کے شیخ اکبر ہیں۔ (۱)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ذہبی ،تذکرۃ الحفاظ، الطبقۃ الثالثۃ ۱؍۶۳، ڈیجیٹل لائبریری