ا چھالی ہے جس کو بہت سارے سمندر نہیں دھو سکتے ہیں۔(۱)
قاضی القضاۃ شمس الدین ابن خلکان الشافعی(م ۶۸۱ھ) خطیب بغدادی کی اس غلط طرز گفتگو پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خطیب نے اپنی تاریخ میں امام صاحب کے بارے میں بہت سے مناقب ذکر کئے اس کے بعد کچھ ایسی ناگفتہ بہ باتیں بھی لکھی ہیں جن کا ذکر نہ کرنا اور ان سے اعراض کرنا بہت ہی مناسب تھا؛ کیوں کہ امام اعظم جیسی شخصیت کے متعلق نہ تو دیانت میں شبہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ورع وحفظ میں، آپ پر کوئی نکتہ چینی بجز قلت عربیت کے اور نہیں کی گئی ہے۔(۲)
خطیب اورچند دیگر حضرات کے علاوہ زیادہ تر مصنفین اور مؤرخین، ائمہ جرح وتعدیل اور ائمہ حدیث نے امام صاحب کے فضائل و مناقب کو انصاف کے ساتھ ذکر کیا ہے، اور کسی قسم کے جرح کو ذکر نہیں کیا ہے؛بلکہ صرف مناقب پر اکتفا کیا ہے، نمونے کے طور پر چند اسماء الرجال کی کتابوں اور چند ائمہ حدیث کے اقوال کو یہاں مختصرا ذکر کیا جاتا ہے، امام ذہبی(م ۷۴۸ھ) نے تذکرۃ الحفاظ میں، حافظ ابن حجر عسقلانی (م۸۵۲ھ)نے تہذیب التہذیب میں ،حافظ صفی الدین خزرجی(م۹۲۳ھ)نے خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال میں، علامہ نووی(م۶۷۶ھ)نے تہذیب الاسماء واللغات میں، امام یافعی (م۷۶۸ھ)نے مرآۃ الجنان میں امام صاحب کے حالات اور مناقب کو ذکر کیا ہے؛لیکن کسی نے کوئی جرح نہیں کی ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان ائمہ جرح وتعدیل کے نزدیک امام صاحب کی جرح کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،اب چند معتمد ترین اور ائمہ علم وفضل
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) محمدبن یوسف الصالحی الدمشقی، عقود الجمان ص:۴۸، تحقیق ودراسۃ ملا عبد القادر افغانی، جامعہ ملک عبد العزیز
(۲) ابن خلکان، شمس الدین احمد بن محمد،تاریخ ابن خلکان ۵؍۴۰۵، ترجمۃ الامام ابو حنیفہ، دارصادر بیروت ۱۹۰۰ء