طریقہ تھا کہ استاذ کسی مسئلہ پر زبانی گفتگو کرتا تھا جسے شاگرد یاد کرلیا کرتے یا لکھ لیا کرتے تھے، امام صاحب چوں کہ ’’حماد اسکول‘‘ میں نئے نئے شریک ہوئے تھے، اس لئے ان کی بیٹھنے کی جگہ بائیں طرف تھی، قدیم اور ذہین طلبہ استاذ کے دائیں طرف بیٹھا کرتے تھے، لیکن چند ہی دنوں میں استاذحماد نے محسوس کرلیا کہ علم، ذہانت، ادب اور طلب میں ابو حنیفہ سب پر فوقیت رکھتے ہیں، اس لئے انہیں سب سے آگے بیٹھنے کا حکم دیا۔
حماد کا انتقال ۱۲۰ھ میں ہوا، امام صاحب حضرت حماد کی وفات تک ان سے وابستہ رہے، اگر چہ دوسرے اساتذہ سے بھی فقہ کی تعلیم حاصل کی، لیکن آپ کے خاص استاذ جن کی خاص تربیت کی بنا پر آپ فقہ کے آفتاب وماہتاب بن کر چمکے اور اس میں امامت کے درجہ پرفائز ہوئے وہ حضرت حماد ہی تھے، امام صاحب حماد کی حد درجہ تعظیم کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں ہر نماز میں اپنے والدین کے ساتھ ساتھ حضرت حماد کے لئے بھی دعا کرتا ہوں(۱) آپ نے استاذ کی اس درجہ تعظیم کی گویا کہ رسم شاگردی انہی پر ختم ہوگئی۔
حدیث کی تحصیل
حضرت حماد سے تعلیم کے زمانے میں ہی امام صاحب نے حدیث کی طرف توجہ کی تھی؛ کیوں کہ مسائل فقہ کی مجتہدانہ تحقیق حدیث کی تکمیل کے بغیر ممکن نہ تھی، اس وقت تمام ممالک اسلامیہ میں زوروشور سے حدیث کا سلسلہ جاری تھا، ہر جگہ سند وروایت کے دفتر کھلے ہوئے تھے، حضرات صحابہ ،آپﷺ کی امانت اور تبلیغی ذمہ داری کے پیش نظر مختلف ممالک میں پھیل گئے تھے، جہاں جہاں صحابہ پہونچتے وہیں علم حدیث کا مدرسہ قائم ہوجاتا، لوگ پروانہ وار ٹوٹ پڑتے،جن شہروں میں صحابہ یا تابعین کازیادہ مجمع ہوتا وہ دارالعلم کے لقب سے ممتاز ہوجاتے، ان میں مکہ معظمہ، مدینہ، یمن، بصرہ، کوفہ کو خاص امتیاز حاصل تھا، کیوں کہ اسلامی آثار کے لحاظ سے کوئی شہر ان مقامات کا ہمسر نہ تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) مناقب ابی حنیفہ للموفق ۱؍۲۵۷